وائس چانسلرتعیناتی عمل دوبارہ شروع کرنا

پشاور ہائیکورٹ: وائس چانسلرتعیناتی عمل دوبارہ شروع کرنا کالعدم قرار

ویب ڈیسک: پشاور ہائی کورٹ نے وائس چانسلرتعیناتی عمل دوبارہ شروع کرنا کالعدم قرار دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے وائس چانسلر کی تعیناتی پراسس دوبارہ کرنے کے خلاف دائر کیس کا تحریری فیصلہ جسٹس اعجاز انور نے جاری کر دیا۔
15 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ میں عدالت نے وائس چانسلرتعیناتی پراسس دوبارہ کرنا کالعدم قرار دے دیا۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بدقسمتی سے صوبے کی 24 جامعات مستقل وائس چانسلرز کے بغیر چل رہی ہیں، صوبائی حکومت کا وائس چانسلر تعیناتی پراسس دوبارہ کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیاہے کہ صوبائی حکومت اکیڈمک سرچ کمیٹی کی سفارشات وزیراعلی کو منظوری کے لئے ارسال کریں۔ منتخب حکومت نے 2022 میں یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لئے پراسس شروع کیا۔ 2 فروری 2022 کو اکیڈمک سرچ کمیٹی ممبران کے نام فائنل کئے اور اس کے بعد انہیں گورنر نے نوٹیفائی کیا۔
فیصلہ میں مزید کہا گیاہے کہ حکومت تحلیلی کے بعد نگران حکومت قائم کی گئی اور کچھ ممبران نے انٹرویوز کی تاریخ میں بار بار تبدیلی پر کمیٹی سے استعفی دیا۔ بدقسمتی سے نگران حکومت کی غیرپیشہ ورانہ رویہ کی وجہ سے وائس چانسلرز کے امیدواروں کے انٹرویوز ملتوی ہوئے۔
یونیورسٹیز کے وی سیز کے حوالے سے عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پہلی بار 25 اور 26 فروری 2023 دوسری بار 22 اور 23 مئی اور پھر 19 اور 20 جولائی کو امیدواروں کے انٹرویوز ملتوی ہوئے۔
پشاور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 230 نگران حکومت کو پالیسی معاملات میں مداخلت سے روکتی ہے، تاہم الیکشن ایکٹ سیکشن 230 نگران حکومت کو روزانہ کی حکومتی معاملات دیکھنے سے نہیں روکتی۔ وائس چانسلرز کی تعیناتی کا پراسس منتخب حکومت نے شروع کیا تھا۔
اس کے بعد نگران حکومت نے سرچ کمیٹی ممبران کے استعفی سے خالی ہونے والی سیٹوں پر تین ممبران تعینات کئے، اس کے بعد سرچ کمیٹی نے 23 سے 26 جنوری 2024 کو وائس چانسلرز کے لئے اہل امیدواروں کے انٹرویوز کئے، جس کے بعد 19 جامعات کے لئے تین تین نام تجویز کئے گئے۔
فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ نگران وزیراعلی کے سامنے سمری رکھی گئی اور وزیراعلی نے اس کی منظوری دی۔ الیکشن کے بعد منتخب حکومت آئی اور کابینہ نے تمام کارروائی کو ضائع کیا۔ صوبائی کابینہ نے قرار دیا کہ نگران حکومت کے پاس سرچ کمیٹی تعیناتی کا اختیار نہیں تھا۔
عدالت کی جانب سے جاری 15 صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 230 نگران حکومت کو پالیسی معاملات سے روکتی ہے، روزانہ کے حکومتی معاملات سے نہیں۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ لاء ڈیپارٹمنٹ اور سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن نے رائے دی تھی کہ کمیٹی ممبران کی تنظیم نو روٹین پراسس ہے۔ اس دوران ایڈوکیٹ جنرل نے حکومت کو رائے دی کہ اس پراسس کو دوبارہ کیا جائے۔
نگران حکومت نے کمیٹی ممبران کی استعفی کے بعد نئے ممبران کی تعیناتی کے لئے الیکشن کمیشن سے اجازت لی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ وائس چانسلرز اہم پوسٹ ہوتی ہے صوبے کی 24 جامعات بغیر وائس چانسلرز کے چل رہی ہیں۔ اس لئے وائس چانسلرتعیناتی عمل دوبارہ شروع کرنا کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کی ترقی اور بحالی امن میں علماء کا کردار نمایاں ہے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف