مزید تاخیر کی گنجائش نہیں

لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کے احتجاج کے بعد اب باجوڑ سے بھی پولیس کی جانب سے اس طرح کے احتجاج کااعلان سامنے آیا ہے صوبے میں پولیس فورس کے اس نہج پر آنے سے پوری پولیس فورس کے نظم وضبط کے ساتھ ان کے مورال کا سوال اٹھنا فطری امر ہے قبل ازیں سی ٹی ڈی ٹی کے اہلکاروں اور دیگر پولیس اہلکاروں کے جذباتی مناظر بھی زیادہ پرانی بات نہیں لکی مروت میں پولیس فورس کے احتجاج پر پشاور کراچی انڈس ہائی وے سے لکی مروت تک مسافر گاڑیوں کی حفاطت خطرے میں پڑ گئی ہے لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کے احتجاج کی وجہ سے کراچی پشاورانڈس ہائی وے،منجیوالہ روڈ اوردرہ پیزو روڈ بندش کے باعث متبادل راستوں پر ڈاکوئوں کی مال بردار گاڑیوں میں لوٹ مار کی شکایات کے بعد مختلف دیہاتوں میں قائم فلاحی تنظیموں نے پشاور کراچی انڈس ہائی وے سے ملانے والے عمر اڈہ روڈ براستہ مشہ منصور زنگی خیل،میلہ مندرہ خیل، شہاب خیل اور لکی مروت شہر تک جگہ جگہ مسافر گاڑیوں کی حفاطت کیلئے مسلح گشت شروع کردیاہے۔دیہاتیوں کی طرف سے ان کی جگہ جگہ ٹھنڈے پانی اور مشروبات سے تواضع کی جارہی ہے جبکہ متعلقہ علاقوں میں گزرنے والے مسافروں کیلئے کھانے کا بھی بندوبست ہے ،مختلف لوگوں نے مسافروںکے رکنے کے انتظامات بھی کر رکھے ہیں۔عوام اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے اس درجے کا احساس اور رضا کارانہ حفاظت کی ذمہ داری لینا حد درجہ قابل تحسین امر ہے لیکن عوامی سطح پر اس طرح کے احسن اقدامات مسئلے کا وقتی حل ہی ہو سکتے ہیں مستقل نہیں اصل سوال یہ ہے کہ پولیس آخر کیوں اس طرح کے احتجاج پر مجبور ہوئی ان وجوہات کا جائزہ لینے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے مبادا کہ باجوڑ کے بعد دیگر علاقوں میں بھی پولیس کا عملہ اپنے ساتھیوں کی آوازمیں آواز ملانے کافیصلہ کر لیں تو پھر صورتحال خدانخواستہ بغاوت ہی کی طرف جانے کا خدشہ ہوگا امر واقع یہ ہے کہ حال ہی میں شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں صرف اگست میں 29دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں25 جانیں گئیں۔ لکی مروت اور اس کے آس پاس کے اضلاع خاص طور پر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار، سیکورٹی اہلکار اور سرکاری اہلکار نشانہ بنے ہیں۔اس لئے اگر پولیس اہلکار احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال واضح طور پر تشویشناک ہے۔ اگر پولیس کا مورال پست ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی شکایات کو عوامی سطح پر پہنچانا پڑتا ہے، تواس سے متاثرہ علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کی ناکامی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مقامی شہری پولیس اہلکاروں کے مطالبات کی حمایت کر رہے ہیں۔پولیس اہلکار عسکریت پسندی کے خلاف مہم میں فرنٹ لائن پر ہیں، اور ان کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ احتجاج کرنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں اس صورتحال میں بلاتاخیر دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لئے با اختیار ہونا چاہئے معاملہ ہاتھ سے نکلنے سے پہلے دہشت گردی کی لعنت کا صفایا کرنے کے لئے پولیس، محکمہ انسداد دہشت گردی، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے جہاں ضرورت ہو فوج کی مددبھی حاصل کی جائے، تاکہ دہشت گرد گروہوں کا علاقوں سے صفایا کیا جائے دہشت گرد گروہوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے متحرک کارروائیوں کے بعد، شہری انتظامیہ زیادہ فعال طور پر کام کر سکے گی جس کے نتیجے میں صورتحال میںمزید بہتری آئے گی۔

مزید پڑھیں:  میزائل' امریکی پابندی اور وزارت خارجہ