arif bahar 27

دوبارہ رنگ سجنے کا خواب

اپوزیشن اتحاد مرحلہ وار اپنے طے کردہ ہدف کی طرف بڑھنے کی کوشش میں ہے۔ ہدف صرف یہ کہ ملکی منظر عمران خان سے خالی ہو جائے اس کے بعد کیا ہوگا انہیں اس سے غرض نہیں، البتہ ان کا خیال اور خواب مسلم لیگ ن کے اس ترانے سے جڑا ہے ”میاں دے نعرے وجنے ای وجنے نے، دوبارہ رنگ سجنے ای سجنے نے” دوبارہ پرانے رنگ سجنے کی قوی اُمید پر اپوزیشن سارے منظر کو تلپٹ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ دوبارہ رنگ سجنے کا مطلب یہ ہے نوے کی دہائی لوٹ آئے گی، جب عمران خان تابعدار، برخوردار، سلیکٹڈ کے نعروں سے گھبرا کر فوج سے اسی طرح چھیڑ چھاڑ شروع کریں گے جس طرح نوے کی دہائی کے اوائل میں نوازشریف نے بینظیر بھٹو اور بائیں بازو کے دانشوروں کے طعنوں سے تنگ آکر اپنے زیرک والد میاں محمد شریف کی نصیحت کو پس پشت ڈال کر مرد میدان بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ مرد میدان بننے کے اس کے سوا اور کئی میدان اور راستے تھے جن میں سب سے محفوظ اور پائیدار بہتر کارکردگی اور شفاف طرزحکمرانی تھا مگر طاقت سے طاقت چھیننے کا بے مقصد راستہ اپنا کر وہ ایک مخصوص مائنڈسیٹ کے مستقل اسیر ہو کر رہ گئے یہاں تک کہ تین بار اقتدار سے غیرفطری طور پر بے دخل ہوئے۔ دوبارہ رنگ سجنے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان حکومت گر جائے پھر باہر سے کوئی امپائر آئے نگران وزیراعظم کے طور انتخابات کی نگرانی کرے۔ اپوزیشن جماعتیں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کرکے اتحاد بنائیں۔ جیت کر کوئی صدر بنے کوئی وزیراعظم اور کوئی سپیکر ملک میں قومی مفاہمت کی حامل وہ حکومت قائم جس سے جنرل پرویز مشرف نے حلف لیا تھا، جہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر حلف لے رہے تھے، فرق صرف یہ تھا کہ مسلم لیگ ن کے وزراء نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر حلف لیا تھا۔ اس منظر میں عمران خان کہاں کھڑے ہوں گے، دوبارہ کنٹینر پر یا کسی سڑک پر، پی ڈی ایم کو اس سے غرض نہیں۔ دوبارہ رنگ سجتے ہی ایوانوں میں سرمایہ کاروں کو گھیر کر محفلیں سجیں گی۔ بزرگ صحافی شاہین صہبائی نے پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں ایک انگریزی اخبار میں لکھا تھا کہ جب بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں وہ کسی صحافتی کام کے سلسلے میں ایوان وزیراعظم جاتے تو آصف زداری ذرا ہٹ کر کسی سرمایہ دار کیساتھ کاروباری محفل سجائے ہوتے، میاں نوازشریف کے دور میں کاروباری لوگوں اور سرمایہ کاروں کے خواہش مندوں کیلئے ان کا تکیۂ کلام ہی تھا کہ حسین سے ملیں، حسن سے ملیں، یہ سلسلہ حمزہ سے ملیں سلمان سے ملیں تک دراز ہوتا رہا ہے۔ فوج ان حکومتوں کو لانے یا آنے کی خاموش حمایت پر ہر دور میں تنقید کی زد میں رہی۔ جنرل ضیاء میاں نواز شریف کی سیاسی دریافت پر آج تک تنقید کی زد میں ہیں، شیخ رشید جب میموگیٹ کے زمانے میں ستو اور دھنیا پی کر سونے کی بات کرتے تھے تو ان کا اشارہ اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی جانب ہوتا تھا۔ اسی دور میں شاہین صہبائی نے ہی لکھا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے این آر او نے جو حکومتی بندوبست کیا ہے اس میں اب کرپشن ہو رہی ہے تو اس غلطی کی اصلاح بھی فوج کی ذمہ داری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج میاں نوازشریف دو افراد کے نام لیکر گلہ گزار ہیں۔ ان گلے شکوؤں کی تاریخ بہت پرانی ہے، عمران خان کے ماضی کے وڈیو کلپس میں اسٹیبلشمنٹ پر بے رحم تنقید کی وجہ بھی یہی گلہ رہا ہے کہ وہ بدعنوان نظام سے آنکھیں موند لیتی ہے۔ اگر تو پی ڈی ایم کی جدوجہد کا مقصد دوبارہ یہ رنگ سجانا ہے تو اس کا زمانہ لد گیا ہے، دیوار پر جو تحریر درج ہے وہ اس خواب کی تعبیر سے کوسوں دور ہے، زمانہ اس لئے نہیں بدل گیا کہ عمران خان وزیراعظم ہیں اور جن کی جماعت فرشتہ سیرت لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ زمانہ اس لئے لد گیا ہے کہ دنیا کا کچھ منظر تیزی سے بدل گیا ہے اور باقی بدل رہا ہے۔ 1947 کے بعد سے دنیا کاجو منظر اور اس منظر میں پاکستان کا جو مقام اور مدار تھا وہ سب تبدیلی کی زد میں ہے۔ بدلتے وقت نے پاکستان کا مقام بھی تبدیل کر دیا ہے، دنیا میں ایک نئی سردجنگ جاری ہے اور دنیا ازسرنو بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے۔ پاکستان، امریکہ اور مغربی بلاک سے دور رہا ہے، اس بلاک میں جہاں پاکستان کے بھارت جیسے تاریخی دشمن بلند مقام پا رہے ہیں وہیں پاکستان کے جگری دوست اور برادر بھی شامل ہیں۔ پاکستان ان دوستوں کو بوجھل دل سے خداحافظ ہی کہہ سکتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل اور مفاد چین کی سربراہی میں بننے والے بلاک سے وابستہ ہے۔ ابھی یہ سطور لکھی گئی تھیں کہ ٹی وی پر پی ڈی ایم کے اجلاس میں میاں نوازشریف نے پرانے رنگ سجانے کے خواب سے دست برداری کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے پیشکش کی ہے کہ وہ لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ اگلی بار پیپلزپارٹی اور اس کے بعد مولانا فضل الرحمان اپنا وزیراعظم بنائیں۔ یوں دس سال تک دوبارہ رنگ سجنے سے دست برداری کی یہ خواہش بھی بالواسطہ طور پر دوبارہ رنگ سجانے کے خواب کی آئینہ دار ہے۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد سخت آمد