5 264

سوشل میڈیاکا چیلنج

سوشل میڈیا اکیسویں صدی کا بڑا چیلنج ہے’ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر سماج کے تمام طبقات سوشل میڈیا سے مستفید ہونے کیساتھ ساتھ بیک وقت اس کے خطرات سے بھی دوچار ہیں، اپوزیشن جماعتیں سوشل میڈیا کو جہاں اقتدار کے حصول کا اہم ذریعہ تصور کرتی ہیں ‘ وہیں حکومتوں کے بقا اور دوائم کیلئے سوشل میڈیا کو قابو کرنے کیلئے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ موجوددہ حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے جتنے ضوابط متعارف کرائے گئے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں کیونکہ وہ نیک نیتی پر مبنی ہونے کی بجائے اقتدار کی حفاظت سے متعلق تھے’ اب کی بار تو عدالت عظمیٰ نے سوشل میڈیا سے متعلق حکومتی قواعد کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ مثبت تنقید جمہوریت کا اہم جزو ہے’ آئین کا آرٹیکل19 شہریوںکو آزادی اظہارِ رائے کا حق دیتا ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ جمہوری اقدار میں احتساب کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیا جائے۔ یہ درست ہے کہ اہل دانش طویل عرصہ سے سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کیلئے ضوابط کا تعین کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس لئے توجہ نہیں دی گئی کہ سوشل میڈیا ان کیلئے مشکلات کا باعث نہیں بن رہا تھا’ آج قواعد و ضوابط کی اس لیے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ سوشل میڈیا نے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سوشل میڈیا میں دو طرح کے ضوابط کی خواہاں ہے ‘ ایک کا تعلق صارفین کیلئے ہے’ جس کیلئے وہ اپنی مرضی کے ضوابط متعارف کرنا چاہتی ہے ‘ جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعتراض کیا ہے جبکہ دوسرے کا تعلق سوشل میڈیا کی کمپنیوں سے تعلق رکھتا ہے ‘ حکومت نے یوٹیوب ‘ فیس بک اور ٹویٹر سمیت دیگر کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں کمپنی کو رجسٹرڈ کرائیں’ پاکستان میں دفتر قائم کریں’ حکومت جس مواد سے متعلق اعتراض کرے’ متعلقہ کمپنی کی طرف سے چھ گھنٹے کے اندر اندر قابل اعتراض مواد کو ہٹا دیا جائے’ اسی طرح حکومت کی طرف سے مذکورہ کمپنیوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اپنے ڈیٹابیس تک حکومت کو رسائی دے’ یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ اگر کسی کمپنی نے پاکستان کی شرائط کو تسلیم نہ کیا تو اسے پاکستان میں بلاک کر دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی ایسی کاوشیں بارآور ثابت نہ ہوں گی جو شہریوں کی آزادی اظہار رائے یا ان کی پرائیویسی سے متعلق ہوں گی۔ اس کی واضح مثال گزشتہ سال بھارت میں دیکھنے کو ملی جب بھارت نے واٹس ایپ سے Encryption ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو واٹس ایپ انتظامیہ نے صاف انکار کر دیا’ کمپنی نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ صارفین کی پرائیویسی برقرار رکھے گی۔ یاد رہے بھارت میں واٹس ایپ صارفین کی تعداد چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے’ بھارت کو واٹس ایپ کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی قرار دیا جاتا ہے’ اس کے باوجود کمپنی نے صارفین کا ڈیٹا دینے سے انکار کر دیا تھا تو پاکستان بھارت کی نسبت بہت چھوٹی مارکیٹ ہے۔ حکومت کی طرف سے قواعد وضوابط کی پابندی کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں نے کہا کہ ان ضوابط کے تحت ان کا ملک میں کام جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
آئی ٹی ماہرین کا خیال ہے کہ فائیو جی کے بعد انٹرنیٹ کی گائوں دیہات کی سطح تک رسائی ہو جائے گی اور انٹرنیٹ تقریباً مفت ہو جائے گا ‘ آج جبکہ انٹرنیٹ قدرے مہنگا ہے تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کاروبار آن لائن ہو گیا ہے’ جب انٹرنیٹ کی عام دستیابی ہوگی تو اس وقت کاروبار کس سطح تک آن لائن ہو چکا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح کورونا کے بعد تعلیمی سسٹم بھی آن لائن ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، ایسے حالات میں اگر حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کیلئے سخت قواعد وضوابط پر عمل درآمد کرایا گیا تو چھوٹا کاروباری طبقہ اس سے شدید متاثر ہو گا’ اس لیے جلدبازی میں ضوابط لاگو کرنے کی بجائے ہر ہر پہلو سے ان ضوابط کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بہترین آپشن یہ ہے کہ ضوابط کو مرحلہ وار نافذ کیا جائے’ اس کی ترتیب یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلے مرحلے میں صرف وہی ضوابط متعارف کرائے جائیں جو متفقہ ہوں اور سماجی مسائل سے تعلق رکھتے ہوں۔ مثال کے طور پر ناشائستہ اور غیر اخلاقی مواد جو ہر طبقہ فکر کیلئے مسائل کا باعث بن رہا ہے ‘ اس کا سدباب کیا جائے ‘ اس بارے سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا’ اسی طرح دوسرے مرحلے میں غیرمصدقہ خبروں کیخلاف ضوابط متعارف کرائے جائیں ‘ غیرمصدقہ خبریں سوشل میڈیا کمپنیوں کیلئے بھی چیلنج ہیں، اسلئے ان کی طرف سے اس اقدام کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ابتدائی دو مرحلوں میں کامیابی کے بعد اگلہ قدم اُٹھایا جائے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ سوشل میڈیا سماج کی بہتری کیلئے اہم ذریعہ ثابت ہو گا بصورت دیگر اس ضمن میں تمام تر کوششیں رائیگاں جائیں گی۔

مزید پڑھیں:  سٹیریو ٹائپ احکامات؟