4 122

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

جب آپ کسی بس ویگن کوسٹر سوزوکی یا رکشہ وغیرہ میں سفر کرتے ہیں تو آپ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس گاڑی کے ڈرائیور کے حوالے کردی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں اس گاڑی یا سواری کے سٹئیرنگ کے علاوہ اس کاگئیر کلچ بریک اور اکسیلیٹر وغیرہ ہوتا ہے۔ اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے وہ کس سپیڈ سے اپنے آپ کو اور اپنی گاڑی کی سواریوں کو خاکم بدہن موت کے منہ میں دھکیلتا ہے یا انہیں نہایت احتیاط کے ساتھ ڈرائیونگ کرتے ہوئے صحیح سلامت اپنی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔
سب کو پہنچا کر منزل پر
آپ رستے میں رہ گیا ہوں میں
کہتے ہیں کہ ایک اسکول ٹیچر بچوں کی ذہنی استعداد کا امتحان لینے کے لئے کسی بے حد نڈر اور بہادر کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ” کسی بھی مائی کے لال کو اسے روکنے کی جرأت نہیں تھی۔ وہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ اگر کسی نے اس کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش کی تو اسے منہ کی کھاکر زندگی بھر پچتانا پڑا۔ کو ئی بتا سکتا کہ میرا اشارہ کس نڈر بہادر اور جری جوان کے جانب ہے”۔ ” رکشہ ڈرائیور ” مگر سارے ڈرائیور ایسے بے پرواہ نہیں ہوتے۔ کیونکہ ان کو اپنی جان کے علاوہ اپنی سواریوں کی بھی جان عزیز ہوتی ہے۔ یہ گاڑیوں کے اندر جو ڈرائیور کو پچھلی نشتوں پر بیٹھی سواریوں کو دیکھنے یا کمر کے پیچھے ہونے والی حرکات کا جائزہ لینے کے لئے شیشہ لگا ہوتا ہے وہ بھی ڈرائیور کو صحیح سمت میں سفر کرنے نہیں دیتا۔ یہ میری زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ ہے ، ایک دم سے دھڑام کی آواز آئی۔ یا اللہ خیر کیا ہوگیا ہم اس جانب دوڑے جدھر سے آواز آئی تھی ایک بس ڈرائیور نے ناک کی سیدھ میں جانے کی بجائے اپنی بس کو ایک عمارت کی دیوار سے اس زور سے ٹکرا دیا تھا کہ بس کا حلیہ بگڑنے اور اس کے شیشے چور چور ہونے علاوہ عمارت کی دیوار بھی ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی ۔ بس کی سواریوں کی اندر کی سانسیں اندر اور باہر کی باہر رہ گئی اچھا ہوا کہ وہ لوگ موت کے منہ کا نوالہ بننے سے بچ گئے اگر نہ بچتے تو ہمیں کیسے ایک حسین و نازنین خاتون بتا پاتیں کہ ڈرائیور
گھنگھور گھٹا بد مست مست
تو چیز بڑی ہے مست مست
قسم کا کوئی گانا سن رہا تھا اور سامنے کے شیشے سے جھانک جھانک کر اس کے لپ سٹک یافتہ ہونٹوں اور سرخی پوڈرسے اٹے چہرے کو بھانپ رہا تھا۔ ہم نے ایسے ہی ایک ڈرائیور کے متعلق سن رکھا ہے کہ اس نے فورٹ روڈ کے بنگلے کے دروازے میں کھڑی حسینہ کو دیکھا اور اپنی گاڑی کو بنگلے کی دیوار سے ٹکرا کر اس کے اندر داخل ہوگیا۔ اور اپنی بد حواسی کا جواز پیش کرتے ہوئے خاتون خانہ سے کہنے لگا کہ” جی میں صدر روڈ جانا تھا”۔ جس کے جواب میں ٹوٹے ہوئے بنگلے کی مالکن نے کہا کہ” یوں کرو کہ بائیں ہاتھ والی دیوار توڑ کر اندر داخل ہو جاؤ۔ تم ہمارے کچن میں پہنچ جاؤ گے، پھر دائیں جانب مڑ جانا اس طرح تم ہمارے ہمسایوں کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو جاؤ گے۔ بس صرف ا ایک دیوار مزید توڑنی ہوگی اور تم اپنے آپ کو صدر روڈ پر پاؤ گے۔ جی میں سمجھا نہیں۔ ڈرائیور نے بوکھلاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔ ابھی سمجھاتی ہوں۔ اتنا کہہ کر خاتون خانہ نے جیب سے موبائیل نکالا اور پولیس کا ایمر جنسی نمبر تلاش کرنے لگی۔ کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ذرا سی غفلت یا ناتجربہ کاری کسی گاڑی کے ڈرائیور کو اس کی گاڑی اور گا ڑی میں بیٹھی سواریوں سمیت۔یہ جو پشاور کی سکھ برادری کو بائیس ہلاکتوں کا صدمہ برداشت کرنا پڑا اس کی وجہ بھی ڈرائیور کی تیز رفتاری تھی۔ تین گاڑیوں میں سوار تھے سکھ برادری کے سردار تعزیت کے لئے جانے والے سرداروں سے بھری پری تین گاڑیوں میں سے شیخو پورہ کے قریب دو گاڑیاں ریلوے ٹریک یا پٹڑی پار کرچکی تھیں ایسے میں تیسری گاڑی کا ڈرائیور بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ پھاٹک بند تھا کہ ٹرین نے گزرنا تھا۔سو وہ متبادل راستے پر آگیا اور کچے سے گزرتے ہوئے پٹڑی پار کرنے لگا اور یوں’ہم تو ڈوبے ہیں صنم ،تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘کے مصداق اپنے ساتھ وا گرو، وائے گرو یا واہی گرو کے نام لیواؤں کو بھی لے ڈوبا ، ہمارے ہاں طوطے کی مددسے فال دیکھنے والوں کو پروفیسر کہتے ہیں ، اور اومنی بسوں یا ویگنوں کے ڈرائیوروں کو استاد کہا جاتا ہے ،پرانے زمانے میں جب ماں باپ اپنے بچوں کو کسی مدرسے کے معلم یا استاد کے ہاں پڑھنے لکھنے کے لئے بھیجتے تھے تو استاد کو کہتے تھے کہ اس بچے کی ہڈیا ں ہماری اور گوشت آپ کا لیکن جب آپ کسی گاڑی میں بیٹھتے ہیں تواپنی ہڈیاں اور گوشت دونوں ہی ہتھیلی پر رکھ کر اس کے حوالہ کردیتے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ