گندم سکینڈل کی تحقیقات

وزیراعظم شہباز شریف نے گندم درآمد سکینڈل کمیٹی کے سربراہ سے کہا ہے کہ ذمہ داروں کا تعین کر کے بتایا جائے اور اس ضمن میں کوئی لگی لپٹی مت رکھیں ، قوم کے سامنے سب کچھ رکھیں گے ،وزیراعظم نے گزشتہ روز گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کیساتھ ملاقات کے دوران انہیں ہدایت کی کہ سکینڈل کی شفاف تحقیقات کر کے پیر تک حتمی رپورٹ پیش کی جائے ،ادھر ایک خبر کے مطابق گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے نگران دور کے وزراء اور سرکاری حکام سمیت اہم افراد کی طلبی کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں، خاص طور پر سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی کو طلب کرنے کے بارے میں سیکرٹری کابینہ کی جانب سے تردید سامنے آئی ہے، جہاں تک گندم درآمد سکینڈل کے حوالے سے حقائق سامنے آنے کا تعلق ہے یہ ایک ایسا سکینڈل ہے جس نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس میں اربوں کھربوں کے خرد برد کا انکشاف ایک طرف جبکہ درآمدی گندم سے آنے والے سال میں مزید پیچیدگیاں سامنے ا سکتی ہیں کیونکہ اس وقت اس بہت بڑے سکینڈل کی وجہ سے حکومت کیلئے کسانوں سے گندم کی خریداری میں شدید مشکلات درپیش ہیں ،کسان الگ سے پریشان ہیں ،حالانکہ وزیراعظم نے کسانوں سے گندم کی خریداری کے حوالے سے احکامات بھی دئیے ہیں لیکن متعلقہ حکام ان احکامات پر عمل درآمد میں ٹال مٹول سے کام اس لئے لے رہے ہیں کہ سرکاری گوداموں میں پہلے ہی سے درآمد شدہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ اگر کسانوں سے گندم نہ خریدی گئی تو وہ اگلے سال گندم کی بوائی سے توبہ تائب ہو سکتے ہیں اور آنے والے سالوں میں خدانخواستہ قحط کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، درآمد کردہ گندم کے حوالے سے جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں ان کے مطابق جس وقت باہر سے گندم منگوانے کا فیصلہ کیا گیا اس وقت نہ صرف سرکاری گوداموں میں 45 لاکھ میٹرک ٹن گندم پہلے سے موجود تھی اور محکمہ زراعت نے گندم کی بمپر فصل اگنے کی اطلاعات بھی دے رکھی تھیں مگر اس کے باوجود مزید لاکھوں ٹن گندم منگوائی گئی جس کی ضرورت نہیں تھی، مگر جن لوگوں نے اس حوالے سے سرگرمی دکھائی اور ملک میں منتخب حکومت کے قیام سے پہلے ہی یہ ” واردات”ڈالی انہوں نے مبینہ طور پر اس سودے میں خوب خوب ہاتھ رنگے جبکہ اس سلسلے میں جس بے قاعدگی کا انکشاف سامنے آیا ہے اس کے مطابق گندم پہلے منگوائی گئی اور درآمد کی اجازت بعد میں لی گئی ،کیونکہ ”منصوبے ”کی اجازت ملنے کے سات آٹھ روز کے اندر گندم سے لدے ہوئے جہاز پاکستان کی بندرگاہ پر پہنچ گئے حالانکہ جہازوں کو یہ سفر کم از کم 25 روز میں طے کرنا ہوتا ہے، اس سے اس معاملے میں ”بدنیتی ” کا پتہ چلتا ہے ،مزید اطلاعات یہ بھی ہیں کہ درآمد شدہ گندم میں بہت زیادہ مقدار خراب ،ناکارہ اور ناقابل استعمال گندم کی ہے جو انسانی استعمال کیلئے خطرناک ہوگی، اگرچہ ماضی میں بھی گندم اور چینی کے ایسے کئی سکینڈل تاریخ کا حصہ ہیں جن میں بڑے بڑے طاقتور گروپ اور شخصیات کا نام لیا جاتا ہے، تاہم اس وقت طریقہ واردات یہ ہوتا تھا کہ پہلے ملک میں ”بمپر کراپ”کا بیانیہ بنا کر بڑے بڑے کارٹل حکومت سے ان دونوں اشیاء کی برآمد کی اجازت لے لیتے تھے اور ان اجازت ناموں کی آڑ میں ضرورت سے زیادہ گندم اور چینی برآمد کر کے ملک کے اندر بحران پیدا کر دیتے تھے اور پھر اسی بحران پر قابو پانے اور عوام کو یہ اشیاء فراہم کرنے کیلئے درآمد کے لائسنس حاصل کر کے دو گنا منافع کمانے کی راہ ہموار کر لیتے تھے بلکہ درآمد شدہ گندم اور چینی کو مزید مہنگا کر کے عوام کا استحصال کرتے تھے ،اس حوالے سے ایک سابق وزیراعظم کے اسی قسم کی سرگرمیوں میں بذات خود ملوث ہونے کی داستان ملکی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، تاہم اب کی بار جو”واردات”ڈالی گئی ہے اس سے ایک جانب کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب اگر اگلے سال کسانوں نے گندم کی بوائی سے انکار کر کے دیگر فصلوں کی جانب توجہ دی تو ملک میں اگلے آنے والے چند برسوں کے دوران قحط کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، اس لئے اس میگا سکینڈل کی مکمل تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد خواہ وہ کتنے ہی طاقتور اور با اثر کیوں نہ ہوں کو کیفر کردار تک پہنچانا لازمی ہے کیونکہ یہ سکینڈل پاکستان کی معیشت اور زراعت کے ساتھ کھلواڑ کے حوالے سے خطرناک ہے ،جسے منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟