چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک

ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ رویت ہلال کمیٹیوں نے دارلحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں بیٹھ چاند دیکھنے کی برسوں پرانی رسم ادا کی پھر عشاء کی نماز کے آگے پیچھے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد نے اعلان کر ہی دیا کہ ملک کے بیشتر حصوں میں چاند نظر آہی گیا ہے۔چاند نظر آنے نہ آنے کی یہ رسم ہم برسوں سے مناتے آرہے ہیں اور خبیر آزاد صاحب سے قبل مفتی منیب الرحمن اس کمیٹی کے سربراہ رہے اور ان کے دو دھائیوں سے زائد کے دور میں عید کا چاند نظر آنا یا نہ آنا ہمیشہ تنازعات میں رہا۔ یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ مفتی منیب الرحمن کے اس فیصلہ کو ان کا زاتی فیصلہ کہا جاتا رہاتاہم یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ ان کے تمام کے تمام فیصلوں میںان کی پوری ٹیم بھی شامل ہوتی تھی جن میں جید علماء کرام کے ساتھ ساتھ محکمہ موسمیات اور محکمہ فلکیات کے ماہرین بھی شامل رہے اور اب کی بار یہی ساری ٹیم مولاناخبیر آزاد کے ساتھ بھی تھی۔
میری طرح پاکستان کی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ محکمہ فلکیات کا شاید یہی کام ہے اس کی ایک زندہ مثال اکتوبر2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر اطلاعات نے جب یہ اطلاع دی کہ پاکستان 2022ء میں چاند پر اپنا مشن بھیجے گاتو پاکستان بھر کے عوام نے اس کا خوب مزاق اڑایا اور سوشل میڈیا میمز بنانے والوں کیلئے جیسے دعوت عام بن گیا اور پھر وہ ان لوگوں کو جملے کسنے کا خوب موقع مل گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان اس وقت اتنے قرضوں میں پھنساہے کہ قرضوں کی قسط بھی اداکرنے کیلئے قرض لینا پڑتاہے ۔ ہر حکومت کا ہر حکمران ملکوں ملکوں پھر کر قرض مان رہے ہوتے ہیں۔ یہ نااہل حکومتیں تو ایک موٹروے بنانے کے بعد گزشتہ تیس سالوں میں کو قابل ذکر روڑ تک نہ بناسکاکہ جس پر سکون سے اپنے وطن میں ہی آرامدہ اور ہموار سفر طے کرسکیں اور یہ حکومتیں کہاں چاند تک کا سفر کرسکتاہے۔ 2022ء میں چین نے پاکستان سمیت آٹھ دیگر ممالک جن میں بنگلہ دیش، ایران، پیروں، جنوبی کوریااور تھائی لینڈ کو چاند کے مدار میں مفت پہنچانے کی پیش کش کی سب ملکوں نے اپنے پراجیکٹ پیش کئے اور خوش قسمتی سے پاکستان کا پراجیکٹ پاس ہوگیا۔ دو سال کی محنت سے سیٹلائیٹ ”آئی کیوب قمر” مکمل کرکے بلاخر بھیج دیا۔
اب جب پاکستان کا خلائی مشن چین کے تعاون سے واقعی چلا گیا تو آپ مانیں یا مانیںمیری طرح پوری قوم کو تو گویا سانپ سونگھ گیا ہے کچھ یہی حال ہمارے پڑوسی ملکوں کا بھی ہے ہمارے ازلی دشمن بھارت تو گویا سکتے میں چلا گیا ہے کہ جو لوگ برسوں سے چاند نظر آیا نہ آیا میں لگے ہوئے تھے وہ چاند پر جانے کے لئے اُڑان بھر چکے ہیں۔ جب کھوج لگائی گئی تو پتہ چلا کہ یہ سب تو ہمارے پیارے دوست ملک چین کے بھر پور تعاون اور بغیر کسی رقم کے خرچ کرنے سے ہواہے تو ان کے یہاں تو صف ماتم بچھ گئی ۔حالانکہ بھارت ہم سے پہلے ہی چاند پر بلکہ مریخ تک اپنے خلائی مشن بھیج چکا ہے اور اس ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کہیں زیادہ اور طاقتور ہے بھارتیوں کے ذہن اس معاملہ میں کئی ملکوں سے بہتر ہیںمگران کی روایتی حسد کی وجہ سے پاکستان کے کسی بھی اچھے اقدام سے اسے جیسے چڑ سی ہو جاتی ہے۔
چاند پر جانے کی پاکستان کی خواہش کی کوشش یونہی اچانک نہیں بلکہ برس ہا برس کی ریاضت کا ثمر ہے پاکستان بننے کے چند برس بعد ہی اس پر کام شروع ہوچکاتھا 1962ء میں پاکستانی سائنس دانوں نے پہلا موسمیاتی راکٹ ”رہبر اول” خلاء میں روانا کیا تھااس مشن کی سربراہی پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے کی تھی۔ ساٹھ کی دھائی میں یہ کام شروع کرنے والا ملک ساٹھ سال میں کن کن تکلیف دہ مراحل سے گزرہ اس کی ایک لمبی کہانی ہے اور اس کا سارہ معاجر2021ء میں اس ٹیم اور پراجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق مصطفی سب کو کھل کر بتادیا تھاان کا کہنا تھا کہ سپارکو کی زیادہ تر توانائیاں دفاع کی طرف لگی رہیںتاہم آج ہمیں ذکر کرنا ہے اس مشن کے کامیاب ہونے کا ۔ پاکستان نے اپنے پڑوسی اور دوست ملک چین کے تعاون سے کئی سیٹلائیٹس لانچ کئے ۔ ایک سیٹلائیٹ کا لانچ کرنے پر بہت زیادہ خرچ آتاہے تاہم اب کی بار یہ ساری لاگت چین نے برداشت کی ہے لہٰذہ ہمیں اس پر اپنی توانائیاں ضاع کرنے کی بجائے اس مشن کے کامیاب ہونے کی دعا کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  گری ہوئی سیاست