فارم47کی پیداوار

عرصے بعد جمعہ کی نماز پڑھنے محلے کی مسجد میں گیا۔مولوی صاحب بڑے زور شور سے بڑھاپے کی نشانیاں بتانے اور موت کے قریب آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ ساتھ ساتھ چندے کے لئے بچھائی چادر پر بھی نظریں جمائے ہوے تھے۔ چھوٹا نوٹ آنے پر استغفراللہ اور بڑا نوٹ آنے پر سبحا ن اللہ۔ اللہ اکبر کہہ کر مقتدیوں کو اپنی اپنی جیبیں خالی کرانے پر اکسا رہے تھے۔
مجھ جیسی بظاہر موٹی آسامی کو دیکھ کر مولوی صاحب کی آنکھوں میں خصوصی لالچی چمک نمودار ہوئی۔اور خوشآمدی لہجے میں فرمانے لگے کہ لو ڈاکٹر صاحب بھی آگئے ۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو تو بڑھاپا آنے اور موت کے قریب آنے کا کئی سال پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ آپ بھی بڑھاپے کی ایک بڑی نشانی بتا دیجئے۔ ۔میں نے عرض کیا کہ نہیں پکا اندازہ تو مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کچھ فارم 47 والے بوڑھے بھی دھوکہ دے جاتے ہیں۔ایسے کھانستے ہیں گویا آج رات کو انتقال فرمانے کا پکا ارادہ ہو لیکن اگلے ہفتے خبر ملتی ہے۔کہ موصوف نے اللہ کے فضل و کرم سے چوتھی شادی بھی کر لی ہے۔ اور ہنی مون منانے نتھیاگلی گئے ہوے ہیں۔ خیر جب بندہ اعمال کی بجائے فضائل اعمال پڑھنے لگے تو سمجھ جائیں۔کہ وہ اب بوڑھا ہو گیاہے۔اب یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔ بس ایک درمیانی مخلوق ہے۔جس سے کسی صنف کو خطرہ نہیں۔
مولوی صاحب ہنسنے لگے۔اتنا ہنسے کہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ منبر سے اترے اور فرمانے لگے میں احتیاطا دوبارہ وضو کرلوں کہیں خدا نخواستہ۔۔۔۔۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ مولوی بھی فارم 47 والا ہے۔علم کہیں نہیں سیکھا۔بس کچھ کہانیاں زبانی یاد کی ہیں جو ہر جمعے کو سناتا ہے۔اللہ اس ملک پر رحم فرمائے ۔فارم47والے پارلیمنٹیرین اور فارم47والے پیر اور پیدائشی اولیااللہ کیا کم تھے کہ اب فارم47والے مولویوں کو بھی بھگتنا پڑیگا۔
فارم 47والے پیروں کی نشانیاں تو سب کو معلوم ہیں۔ کہ جب کسی گھر میں کوئی بچہ دماغی عوارض کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔جو بولنے کی بجائے بس غوں غاں کرتا ہے۔ اور آسمان کو گھور گھور کر بڑ بڑاہٹ کرتا ہے۔ تو اس کے لالچی رشتہ دار اسے پیدائشی ولی اللہ مشہور کرتے ہیں۔اس کے لئے کوئی پرانی لاوارث قبر تلاش کر کے ولی اللہ صاحب کو ادھر بٹھا دیتے ہیں۔اور قبر کے گرد چاردیواری بنوا کر دربار ‘ خانقاہ یا درگاہ عالیہ تیار کر لیتے ہیں۔اور پھر مریدین اور دولت کی بارش شروع۔ کچھ خاندانوں میں جو بچہ سب سے ذیادہ نالائق ہو اور تیسری جماعت میں تیسری دفعہ فیل ہونے کے بعد سکول سے بھاگ جائے۔تو اسے بھی پگڑی پہنا کر اور آنکھوں میں سرمہ ڈال کر پیری مریدی کے نفع بخش پیشے میں ڈالاجاتا ہے۔ اس پیشے میں بس حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ‘ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب دو چار سچی جھوٹی کہانیاں یاد کرنی پڑتی ہیں۔اور ان کے خاندانوں کے ساتھ اپنے خاندان کا شجر ہ نسب ملایا جاتا ہے۔ بس یہی مریدوں کو سنا سنا کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ سب سے ذیادہ نفع بخش پیشہ ہے۔میڈیکل ‘ انجینئرنگ اور دوسرے پیشے تو اس پیشے کے سامنے کچھ بھی نہیں۔نہ کوئی خرچہ۔ نہ کوئی فکر ۔نہ کوئی ڈانٹ ڈپٹ والا ۔ کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہو جائے تو پیر صاحب کی دعا سے اور مرجائے تو اللہ کی مرضی ۔ دس سال تک پیر صاحب کی خدمت کرکے بھی پانچ بیٹیاں پیدا ہوں تو اللہ کی مرضی۔ چھٹی مرتبہ سٹیٹسٹکس کے قوانین کے تحت بیٹا پیدا ہو تو اچھل کود کہ یہ پیر صاحب کی دعاوں سے ہوا ہے۔اور اس کو نذرانہ دینا ضروری ۔گویا پیر صاحب دس سال سے بد دعائیں دے رہے تھے۔اور اب پہلی دفعہ دعا دی ہے۔ بیٹا میٹرک میں تین دفعہ فیل ہو جائے تو اللہ کی مرضی چوتھی دفعہ نقل کرکے پاس ہو جائے۔تو پیر صاحب کا بھتہ پکا ۔ بیٹے کو پولیس کسی جعلی مقدمے میں گرفتار کرکے حوالات میں ساری رات لٹکائے تو اللہ کی مرضی۔صبح معافی نامہ لکھ کر اور پریس کانفرنس کرکے رہا ہو جائے۔تو پیر صاحب کی رات بھر کی دعاوں کی برکت سے ۔ ایک مرید تو اپنے پیر کی میت کی تصویر کو دائیں بائیں ٹیڑھا کرکے اس کے مختلف پوز دکھا رہے تھے اور اسے پیر صاحب کی بعد از مرگ کرامات بتا رہے تھے۔ حالانکہ یہ فوٹو گرافک ٹیکنیک ہوتا ہے۔اور فلمی ایکٹریسوں کے بھی ایسے پکچرز بازار سے مل جاتی ہیں۔بعد میں معلوم ہوا کہ پیر صاحب کے چالاک بیٹوں نے یہ پکچرز جاہل مریدوں میں تقسیم کئے ہیں۔تاکہ پیر صاحب کی کرامات کا رعب داب پیر صاحب کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے۔ ضعیف العقیدہ انسان اللہ کی رسی کو چھوڑ دے۔تو ایسے جعلی خداوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ اس دھندے میں پیر صاحب کے پورے خاندان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ عوام بے چارے بھی کیا کریں۔جب غربت ‘ جہالت اور بے روزگاری ہر طرف پھیلی ہوئی ہو تو لوگ حکومت سے مایوس ہوکر ایسی نام نہاد خانقاہوں اور درگاہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں موہوم سی امیدوں کے ساتھ ساتھ مفت چاول بھی کھانے کو مل جاتے ہیں۔
کبھی کبھی تو شک پڑتا ہے کہ کہیں خدانخواستہ گذشتہ 70 سال سے ہمارے قومی گاڑی کی سٹئیرنگ ویل پر قابض حلقے بھی کسی جعلی پیر کی دعاوں یا فارم 47 کی پیداوار تو نہیں جو ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ دریا کے مخالف سمت میں تیرنے کا انجام ناکامی ہی ہوتا ہے۔اس لئے اپنے تکبر اور اپنی جعلی انا کو قالین کے نیچے دبا کر ملک وقوم کی خاطر جن کے مطالبات جائزہوںوہ جائز مطالبات مان لیں ۔ ایم کیو ایم کے انتہائی سنجیدہ ‘ جہاں دیدہ اور محب وطن رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی آس ہفتے اسٹیبلشمنٹ کو یہی مشورہ دیا ہے۔کہ ملک و قوم کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے عمران خان کو منانا ہوگا ۔اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ ہے کوئی سننے والا ؟۔

مزید پڑھیں:  رعایا پر بجٹ حملہ