مفروضوں پر مبنی بجٹ

خیبرپختونخوا حکومت نے مالی سال 2024.25 کیلئے 1754 ارب روپے کے حجم کا بجٹ پیش کردیا ہے نئے مالی سال کیلئے صوبے کے اخراجات کا تخمینہ 1654 ارب روپے لگایا گیا ہے یعنی یہ100 ارب کا سرپلس بجٹ ہے خود وزیر خزانہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس بجٹ پرعملدرآمد کا بڑا انحصار ہی وفاق کی طرف سے وسائل کی فراہمی پر ہے جن سے مشاورت کی گئی اور نہ ہی ان کے اعلان کا انتظار کیاگیا کہ وفاق خیبر پختونخوا کوکتنا فنڈ دینے پر آمادہ ہے یا پھر ان کے پاس اس کی گنجائش ہے وزیرخزانہ کے مطابق صوبے کو وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ہزار 212 ارب روپے سے زائد ملنے کی توقع ہے بجٹ میں وفاقی حکومت کے قابل تقسیم محاصل سے 902 ارب 50 کروڑ ملنے کا ہدف ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی مد میں صوبے کو ایک فیصد اضافی رقم کی مد میں 108 ارب 44 کروڑ روپے، پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں 33 ارب 9 کروڑ روپے، پن بجلی کے بقایاجات کی مد میں 78 ارب 21 کروڑ روپے وفاقی حکومت سے صوبے کو جاری ہونے کی توقع ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ضم اضلاع کیلئے 72 ارب 60 کروڑ روپے اور بجٹ کیلئے اضافی گرانٹ کی مد میں وفاقی حکومت کی جانب سے 55 ارب روپے ملنے کا ہدف ہے ضم اضلاع کیلئے 76 ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ بھی وفاقی حکومت سے ملنے کی توقع ہے ۔مختلف فوجی آپریشنوں کی وجہ سے بے گھر خاندانوں کیلئے معاوضہ کی مد میں وفاقی حکومت سے 17 ارب روپے ملنے کی توقع ہے ۔علاوہ ازیں خیبرپختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع کیلئے 3 فیصد شیئر کی مد میں دیگر صوبوں سے آمدن بھی بجٹ اعداد وشمار میں ظاہر کر دئیے ہیں جس کے مطابق پنجاب سے 28 ارب 80 کروڑ روپے ، سندھ سے 11 ارب 30 کروڑ روپے اور بلوچستان سے 4 ارب 20 کروڑ کا حصہ ملنے کا امکان ہے خیبرپختونخوا حکومت کو پن بجلی کی مد میں 111 ارب 30 کروڑ روپے کی آمدن اور پن بجلی سے سالانہ آمدن کی مد میں 33 ارب 10 کروڑ روپے ملنے کا امکان ہے وفاقی حکومت سے بقایاجات کی مد میں 37 ارب 10 کروڑ روپے ملنے کا امکان ہے وفاقی حکومت کے ساتھ متنازعہ پن بجلی کے بقایاجات کی مد میں41 ارب روپے بھی بجٹ میں شامل کئے گئے ہیں اس طرح خیبرپختونخوا حکومت نے وینڈ فال لیوی کی مد میں 46 ارب 80 کروڑ روپے آمدن ظاہر کردی ہے جبکہ تیل پر رائلٹی کی مد میں 26 ارب 20 کروڑروپے ،گیس پر رائلٹی کی مد میں 11 ارب 40 کروڑ روپے ، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 2 ارب 70 کروڑ کی آمدن اور گیس پر ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 2 ارب 70 کروڑ وفاقی حکومت سے ملنے کا امکان ظاہر کیاہے۔صوبائی حکومت نے نئے مالی سال2024.25 میں بین الاقوامی امدادی اداروں سے 121 ارب 75 کروڑ 40 لاکھ روپے کا قرض لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اس قرضہ کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو بین الاقوامی امدادی اداروں سے 8 ارب 83 کروڑ 30 لاکھ روپے کا گرانٹ بھی ملنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔آئینی طور پر تو کسی صوبے کا وفاق سے قبل بجٹ پیش کرنے پر کوئی قدغن نہیںلیکن روایت یہ رہی ہے کہ وفاق کی جانب سے صوبوں کے حوالے سے مختص وسائل کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد اس کے اعداد و شمار کو شامل کرکے بجٹ تیار ہوتا رہا ہے اس طریقے سے ہٹ کر بجٹ پیش کرنے سے بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں جس میں بنیادی سوال بجٹ کے قابل عمل ہونے کا ہے تخمینہ جات اور اندازے ہی کی اگر بنیادپر سوالات اٹھیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے ماضی میں وفاق کی جانب سے صوبے کے لئے مختص وسائل کے اعلانات اور وعدے کے باوجود کٹوتی اور صوبے کو اسکے جائز حق سے محرومی کا سامنا رہا ہے خاص طور پر بجلی کے خالص منافع اور دیگر محصولات اوررائیلٹی میں صوبے کے حصے کی دیانتدارانہ ادایئگی نہ ہونے سے ہر بار صوبے کا پیش شدہ سرپلس بجٹ خسارے میں تبدیل ہوتاآیا ہے اور بجٹ کے غیر متوازن ہونے سے صوبے کی ترقی متاثر ہوتی رہتی ہے تاہم اس مرتبہ یکطرفہ طورپر جو اندازے لگائے گئے یں وہ ان اعداد و شمار پرمبنی ہے جس کی خیبر پختونخوا دعویدار ہے بلاشبہ یہ دعویٰ حق بجانب بھی ہے لیکن وفاق کی طرف سے ان کی ادائیگی ہوتی ہے نہیں ہوتی کتنی ہوتی ہے کب ہوتی ہے اور کب تک ہوتی ہے ان سارے عوامل اور سوالات کے باعث بجٹ پیش کرنے میں حقیقت پسندی نہ ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے ایک جانب سرپلس بجٹ پیش کرنا اور دوسری جانب بھاری قرض کے اعداد و شمار پھر مقررہ ہدف حاصل نہ ہونے کی مشکل اور اوپر سے وفاق کاطرز عمل اور رویہ اور کچھ ان کی مالی مشکلات منجملہ عوامل سے پیچیدگیوں کی نشاندہی ہوتی ہے جن کی موجودگی میں بجٹ کے اہداف کاحصول سوالیہ نشان ہوگا اوربجٹ کے فرضی کہلائے جانے کا خدشہ ہے توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اور محکمہ خزانہ کے پیش محولہ اعتراضات اور شکوک شبہات ضرور ہوں گی جن کے ادراک کے ساتھ ان مسائل سے نمٹنے کی بھر پور حکمت عملی کے بعد ہی بجٹ پیش کیا گیا ہوگا اوران سوالات کابجٹ سیشن میں کافی اور مدلل جوابات دے کر معترضین کو مطمئن بھی کیا جائے گا اور بجٹ کو عملی ثابت کرکے اس پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے گا اور دوسروں کو الزام دیئے بغیر بجٹ اہداف کے حصول میں کامیابی حاصل کی جا سکے گی۔

مزید پڑھیں:  ''ایک انار سو بیمار ''