3 156

کہیں وعدے بھی نبھانے کیلئے ہوتے ہیں؟

موجودہ یا پھر سابقہ ادوار میں برسراقتدار رہنے والی کسی ایک بھی صوبائی حکومت پر موقوف نہیں بلکہ اس ”حمام” میں ناکامی اور نامرادی کی ”بے لباسی” میں کوئی بھی صوبائی حکومت دوسری سے پیچھے نہیں اور یہ جو تازہ اطلاعات کے مطابق پختونخوا حکومت نے وفاق سے تیل کی مد میں ایکسائز ڈیوٹی کے اربوں روپے مانگ لئے ہیں، تو اس کیساتھ ایک اور خبر یہ بھی ہے کہ بجلی کے خالص منافع کے ضمن میں وفاق خیبر پختونخوا کو 35ارب بقایاجات کے ادا نہ کر سکا، سال 2018-19ئ اور 2019-20ء کے دوران 36ارب روپے ملنے کی توقع تھی، صوبے کو صرف 15ارب ہی ملے، کچھ ایسی ہی صورتحال قدرتی گیس کی رائلٹی کی بھی ہے جس پر صوبہ خیبر پختونخوا صرف شور ہی مچاتا رہتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو حکمران (خواہ سابقہ ہوں یا موجودہ) جب آئینی تقاضوں کے مطابق اپنے صوبے کیلئے مقررہ گیس اور بجلی حاصل کرنے میں ناکام ہوں بھلا وہ وفاق سے اتنی بڑی رقم کے حصول میں کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں صوبے کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ مرکز میں کسی اور پارٹی تو صوبے میں (عموماً) مخالف جماعت کی حکومت رہی ہے جو سیاسی مخاصمت کی وجہ سے ایک دوسرے کو زچ کرنے کی ”لت”میں مبتلا رہتی تھیں، یوں وفاق صوبے کے جائز حقوق کی راہ میں روڑے اٹکانے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے ادائیگیوں سے انکار کرتی رہی، خدا خدا کر کے ایک طویل مدت کے بعد اب کی بار نہ صرف وفاق بلکہ صوبے میں بھی ایک ہی جماعت یعنی تحریک انصاف برسراقتدار ہے اور ابتداء میں وزیراعظم عمران خان کیساتھ جب بھی وزیراعلیٰ محمود خان نے ملاقات کی تو باہر آنے والی خبریں خاصی حوصلہ افزاء ہو ا کرتی تھیں یعنی وزیراعظم ہمیشہ ہی یقین دہانی کرواتے تھے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کو بجلی کی رائلٹی کی مد میں ا ن کا جائز حق ادا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا،تاہم یہ سب کچھ پشتو کے ایک ضرب المثل کے مطابق صرف شف شف ہی تھا، اسے شفتا لو بننا ابھی تک نصیب نہیں ہوا۔استاد ذوق نے مرزا غالب پر طنز کرتے ہوئے جو کہا تھا کہ
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
تو اس پر مجھے تحریک پاکستان کے ایک اہم (بعض لوگوں کے مطابق متنازعہ) سیاستدان مرحوم خان عبدالقیوم یاد آگئے، جو قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد (پختونخوا) میں اس دور کی کانگریس کی حکومت کی برطرفی کے بعد صوبے میں وزیراعلیٰ مقرر کئے گئے تھے، ایک بار پنجاب سے گندم اور آٹے کی سپلائی بند ہوئی تو انہوں نے نہ صرف ضلع ہزارہ سے مری کیلئے پانی بند کرنے کا حکم دیا بلکہ مالاکنڈ میں پن بجلی گھر سے بجلی کی فراہمی روکنے کی بھی دھمکی دی تو دوسرے ہی دن آٹے گندم کی سپلائی بحال کر دی گئی، اب ظاہر ہے جب ایسے دبنگ سیاسی رہنما پیدا ہونا ہی بند ہوگئے ہیں تو پھر صوبہ خیبرپختونخوا کیساتھ روا رکھے جانے والے غیرآئینی، غیراخلاقی اور غیرقانونی سلوک کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اب تو صوبے کی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی جرگہ سے ہی کام چلایا جاتا ہے جس کی ابتداء ایم ایم اے کے دور سے ہوئی اور جو اپنے جائز حق کیلئے بھی وفاق کے منت ترلے پر مجبور ہوتے رہے، جناب سراج الحق (تب صوبائی وزیرخزانہ) کی سر براہی میں پارلیمانی جرگہ نے اپنے جائز حق کے اربوں روپے سے ہاتھ دھو کر وفاق کو ”شیر” کر دیا تھا تب سے اب تک کوئی بھی صوبائی حکومت جائز حق کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بجلی اور گیس کی رائلٹی کی اصل رقم تو درکنار (بہ امر مجبوری سمجھوتہ شدہ) رقم کے حصول میں بھی وفاق جس طرح روڑے اٹکا تا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا، بالکل کوویڈ19 کی طرح جس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا مگر دنیا بھر کے سائنسدان آج بھی اس کیلئے کوئی ویکسین دریافت نہ کر سکے، اب اگرچہ روس نے اعلان تو کر دیا ہے مگر اس پر شکوک ہی ظاہر کئے جارہے ہیں، بالکل اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کی پن بجلی کی رائلٹی، گیس اور تیل کے اربوں روپے کی ادائیگی کیلئے کوئی ”آئینی،قانونی ویکسین” ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا، اربوں کھربوں کی ادائیگی تو رہنے دیجئے، یہاں تو حکومت کے واضح اعلانات کے باوجود کہ ملک میں اب بجلی کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہے، خیبرپختونخوا کے طول وعرض میں بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ تک کے مسئلے پر صوبائی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے تو رائلٹی کہاں سے حاصل کرے گا، دور دراز دیہی علاقوں کو تو جانے دیں کہ ان کی قسمت میں بے پناہ لوڈشیڈنگ لکھ دی گئی ہے دارالحکومت پشاور میں ان دنوں جو صورتحال ہے اس کا علاج صوبائی حکمرانوں کی بس سے باہر ہے۔ ہر گھنٹے کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے علاوہ رات کے اوقات میں ہر دس منٹ بعد پانچ سات منٹ کیلئے بجلی بند کر کے لوگوں کے گھروں میں قیمتی الیکٹرانک اشیاء کو نقصان پہنچانے کا کیا اخلاقی جواز ہے؟آخر وزیراعلیٰ محمود خان ہی اس بات کی وضاحت فرما دیں (کہ پیسکو والے تو اذیت پسند ہوچکے ہیں) تب بھی عوام صبر شکر کرلیں گے مگر بدقسمتی سے یہاں تو پورے ملک میں ”ورنہ” پر نوکری ہو رہی ہے بقول عمرت مچھلی شہری
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہونہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کیلئے ہوتے ہیں؟

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک