2 180

مشرقیات

حضرت بلال بن اساف نے اپنے مہمان منذر بن یعلی ثوری سے کہا:کیا میں آپ کو شیخ ربیع بن خثیم کی زیارت کیلئے نہ لے چلوں ؟ تاکہ چند گھڑی ان سے ایمان و یقین کی باتیں ہوں۔منذر نے کہا کہ کیوں نہیں ضرور چلیں میںتو کوفہ آیاہی اس لئے ہوں تاکہ آپ کے محترم شیخ ربیع بن خثیم کی زیارت کرسکوں اور کچھ عرصہ ایمان و یقین کے دل آویز ماحول میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوسکے لیکن کیا ہمیں زیارت کی اجازت بھی مل سکے گی؟ کیونکہ مجھے پتہ چلا ہے کہ جب سے ان پر فالج کا حملہ ہواہے وہ اپنے گھر کے ہی ہوکر رہ گئے ہیں۔ بلال بن اساف بولے! بات تو آپ کے درست ہے جب سے وہ کوفہ میں فروکش ہوئے ہیں ان کا طرز عمل ایسا ہی دیکھنے میں آیاہے لیکن بیماری نے چنداں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔حضرت منذر نے کہا تو پھر ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے ان مشائخ کے مزاج بڑے ہی نرم و نازک ہوا کرتے ہیں آپ کی رائے کیا ہے کہ دوران ملاقات ہم شیخ سے سوالات کریں یا خاموشی سے بیٹھیں اور وہ جو اپنی مرضی سے بات کریں وہی سنیںحضرت بلال بن اسا بولے اگر آپ ربیع بن خثیم کے پاس مکمل ایک سال تک بھی بٹھے رہیں وہ نہیں بولیں گے جب تک تم خود ان سے بات نہیں کروگے وہ قطعاً گفتگو میں پہل نہیں کریں گے کیونکہ ان کا کلام ذکر الٰہی پر مشتمل ہوتاہے اور خاموشی غور و فکرپر مبنی ہوتی ہے۔حضرت منذر نے کہا پھر آپئے اللہ کا نام لے کر ان کے پاس چلتے ہیں دونوں شیخ کے پاس گئے سلام عرض کی اور پوچھا جناب شیخ کیا حال ہے؟ماہر طبیب آیا ہے اجازت ہو تو علاج کیلئے بلالیں۔ فرمایا: بلال میں جانتا ہوں کہ دواء برحق ہے علاج کرنا سنت ہے لیکن میںنے عاد ثمود اصحاب رس اور ان کے درمیان آنے والی قوموں کے حالات کا بغور جائزہ لیا ہے میں نے دنیا میں ان اقوام کے لالچ اور دنیاوی ساز و سامان میں ان کی حریصانہ دلچسپی کو دیکھا ہے وہ ہم سے زیادہ طاقت ور اور صاحب حیثیت تھے ان میں ماہر اطباء بھی موجود تھے وہ لوگ بیمار بھی ہوتے تھے اب دیکھئے نہ کوئی معالج رہا نہ کوئی مریض سب فنا ہوگئے ان کا نام و نشان نہ رہا پھر گہری اورلمبی سوچ کے بعد فرمایا ہاں ایک بیماری ایسی ضرور ہے جس کا علاج ضرور کرانا چاہئے۔ حضرت منذر نے مودبانہ انداز میں پوچھا وہ کون سی بیماری ہے۔فرمایا: اس روحانی بیماری کا نام ہے”گناہ”پوچھا: اس کا علاج کس دواء سے کیا جائے۔ فرمایا: استغفار سے حضرت منذر نے پوچھا شفا کیسے ہوگی؟فرمایا: ایسی سچی توبہ کی جائے کہ وہ پھر گناہ دوبارہ نہ ہو۔جس طرح جسم کو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور اس سے جسم کو تکلیف پہنچتی ہے جو انسان محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح گنا ہ انسان کی روح کی بیماری ہے لیکن انسان اس کی تکلیف براہ راست تو محسوس نہیں کرتا اس کی تکلیف میں روح مبتلا ہوتی ہے اس کا واحد علاج خلوص نیت سے توبہ کرنا ہے ۔ اور جو انسان دل کے اخلاص سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ مایوس نہیں ہوتا ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند