3 130

بنک قطاریں اور پیسکو کی نازک مزاجی

جولائی کی سخت گرمی کے موسم میں دھوپ کے تھپیڑے سہہ کر جب سر میں پڑا بھیجا بھی فرائی ہوجاتا ہے، پیاس حلق سے لیکر ہونٹوں تک پھیل جاتی ہے، پسینہ انگ انگ اور مسام مسام سے نکل کر بدن کو نمی سے تربتر کر دیتا ہے، ایسے میں دو گھونٹ ٹھنڈا پانی اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ثابت ہوتا ہے، گھر کی چھت کا سایہ غنیمت ہوتا ہے، پنکھے کی ہوا کی سبیل نکل آئے تو گرمی کے خلجان سے کچھ افاقہ مل ہی جاتا ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ زندگی تو بہرحال گزارنی ہی ہے، سود وزیاں کیلئے گھر کی چھت کا سایہ چھوڑ کر تارکول کی تپتی سڑک پر نکلنا پڑتا ہی ہے، گویا اوپر سورج اور نیچے زمین دونوں سر سے پاؤں تلک جھلسانے کے موڈ میں ہو تو بندہ کسی درخت کسی چھپر کے سائے کو ہی تلاش کر لیتا ہے۔ یوں بھی ہمارے شہروں میں درخت نابود ہیں کہ جس کی ٹھنڈی چھاؤں تلے کچھ دیر سستا ہی لیا جائے۔ انہی درختوں کی بہتات شہروں کے درجہ حرارت میں کمی کر دیتی ہے لیکن ہمارے شہر پشاور میں تو آئے روز پرانے گھر ٹوٹتے ہیں اور ان کی جگہ زمین سے ایک ملٹی سٹوری شاپنگ پلازہ اُگ آتا ہے۔ اسی پلازے میں پچاس ساٹھ اے سی لگ جاتے ہیں جو کمروں کو ٹھنڈا تو کر دیتے ہیں لیکن شہر کی تپش میں اضافہ کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو صبح سویرے خوب رج کے بارش ہوئی۔ بارش کا دورانیہ شاید تیس پینتیس منٹ ہوگا لیکن پیسکو والوں نے احتیاطاً جو بجلی کھینچی ابھی نہیں چھوڑی۔ کوئی پوچھے تو ان کے پاس یہی جواب ہوگا کہ بارش سے فالٹ آگیا تھا اسلئے پانچ چھ گھنٹے بجلی کا بہاؤ ممکن نہ تھا۔ سو ہم بارشوں کی دعا کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور بارش کی دعا کیلئے پیسکوکیلئے بھی اضافی دعا کرنی پڑتی ہے کہ بارش ہو پر بجلی نہ جائے۔ اب پیسکو کو ثنامکی کا مشورہ بھی نہیں دے سکتے کہ کرونا میں یہی جڑی بوٹی امیون کو مضبوط کرتی ہے، پیسکو کا سسٹم خداجانے اس ثنا مکی سے مضبوط ہوگا کہ نہیں کیونکہ پاکستان کے سب سے زیادہ انجینئر رکھنے والا ادارہ واپڈا اپنے سسٹم کو مضبوط کرنے سے 2020میں بھی قاصر ہے سو پیسکو کے اسی عجز کیساتھ ہزاروں کے بل جمع کروانے پر عوام مجبور ومقصور ومقہور ہیں۔ خیر جب تک پیسکو کی کارکردگی ”شاندار” رہتی ہے اس پر کالم بندھتے رہیں گے اب گرمی سے وابستہ ایک اور موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک بھولا بسرا چیک کہیں سے موصول ہوا، سوچا چلو جاکر بنک میں جمع کروا دیں، سو برانچ پہنچے تو گیٹ کے باہر ایک لمبی قطار میں ہر عمر کے لوگ کھڑے تھے۔ گارڈ سے پوچھا میاں کیا ماجرا ہے تو معلوم ہوا کہ بنک کے ایس او پیز کے مطابق مخصوص تعداد میں ہی کسٹمر بنک کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ باقی کسٹمر باہر انتظار کرتے ہیں، ایک باہر نکلتا ہے تو ایک اندر جاتا ہے۔ قطار کی طوالت کو دیکھنے کے بعد دل نے حوصلہ نہیں پکڑا کہ آخر میں کھڑے ہوجاتے سو گھر کی راہ لی اور شام کو اسی بنک کے ایک ملازم کو چیک تھما دیا کہ صبح جب دل کرے اور جب فراغت ہو چیک جمع کرا دینا اور رسید واٹس ایپ کر دینا، اللہ اللہ خیر سلا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بنک کے اندر جو ایئرکنڈیشنر ٹھنڈی ہوائیں بکھیر رہے تھے انہیں اے سیز کے آؤٹر عین صارفین کی قطاروں کے اوپر دیوار میں نصب تھے اور اپنی حدت بھری ہوا سے صارفین کی اضافی تواضح کر رہے تھے۔ مجھ جیسا ناتوان بندہ تو اس لائن سے بھاگ نکلا لیکن جس بابے نے اپنی پنشن نکالنی ہے وہ تو وہاں ضرور کھڑا ہوگا کہ اس نے اسی پنشن کے پیسوں سے گھر کی دال روٹی چلانی ہے یا کوئی اردلی اپنے صاحب کا چیک جمع کرانے آیا ہے یا کیش کرانے آیا ہے وہ تو اپنا کام ختم کرکے ہی واپس جائیگا۔ اس سارے منظرنامے پر سوچتا ہوں تو بے بسی کا احساس ہمسفر ہو جاتا ہے۔ بنک کے اردلی سے لیکر اسکے پریزیڈنٹ سب کی تنخواہیں اور مراعات انہیں کسٹمرز کی فنڈنگ سے ممکن ہوتی ہیں اور بنک اہلکار اے سی سے یخ بستہ عمارت کے اندر سکون سے کام کر رہے ہیں اور کسٹمر بیچارہ باہر عین دھوپ کے نیچے اپنی باری کا انتظارکر رہا ہے۔ حکومت کے ایس او پیز اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جانا چاہئے لیکن ان ایس اوپیز کے تحت بنک والوں پر بھی اپنے صارفین کی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مستقل نہیں تو عبوری انتظارگاہ کا بندوبست کیا جاسکتا ہے، سائے کیلئے کوئی عارضی سا شیڈ ہی بنایا جاسکتا ہے۔ اندر اتنے اے سی چل رہے ہیں تو ایک دو پیڈسٹل پنکھے ہی قطار میں کھڑے صارفین کیلئے رکھے جاسکتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی کا کولر سڑک پر رکھا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر اندر کیشئرز کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے کہ قطار میں کھڑے صارفین کا جلدی نمبر آسکے۔ اب ان باتوں پر نہ تو حکومت کے ایس او پیز متاثر ہونگے اور نہ ہی امریکہ سے کوئی خاص چیز امپورٹ کرنی پڑے گی بلکہ جناب منیجر صاحب کے دل میں ”درددل” کی ایک رمق چاہئے ہوگی جو بڑی آسانی سے پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی دن اس لمبی قطار کے آخر میں کھڑے ہوجائیں اور دیگر صارفین کی طرح رینگتے رینگتے اپنے نمبر پر بنک میں داخل ہو جائیں۔ یقین کریں منیجر صاحب اپنی سیٹ پر پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کرینگے کہ ٹشو سے اپنے پسینے صاف کرینگے، آفس بوائے سے ٹھنڈا پانی مانگیں گے اور پھر بنک کے باہر لگی قطار میں اپنے ”ذاتی تجربے” کی روشنی میں ”قطاری صارفین” کیلئے ایک حکم نامہ جاری کرینگے کہ چھاؤں، ہوا اور پانی کا بندوبست کیا جائے، تعمیل ہو۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند