5 250

مشرق وسطیٰ میں شعلوں کا کھیل

مشرق وسطیٰ میں پراسرار دوروں، خفیہ سرگرمیوں اور تلخ بیانات سے حالات کی ایک کھچڑی سی پک رہی ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے سرپرست سائنسدان محسن فخری زادے کا قتل اس دیگ کا پہلا دانہ ثابت ہوا۔ محسن فخری زادے کوتہران کے قریب نشانہ بناگیا۔ اس حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے لگی لپٹی رکھے بغیر اس واقعے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی بات کی ہے۔ پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے اعلان کیا ہے اس قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔ سپریم لیڈر کے دفاعی مشیر بریگیڈئرحسین دہقان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر محسن کے قاتلوں کو پچھتانے پر مجبور کریں گے۔ 59سالہ ڈاکٹر محسن ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی،وزارت دفاع کی ریسرچ اینڈ انوویشن آرگنائزیشن، امام حسین یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر تھے۔دوبرس قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میںکہا تھا کہ اس نام کو یاد رکھنا۔ سابق وزیراعظم ایہود المرت نے بھی کہا تھا کہ فخری زادے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔2010 سے 2012 تک ایران کے چار ایٹمی سائنسدانوں کو قتل گیا تھا۔ جس کے بعد ایران نے ڈاکٹر محسن فخری زادے کی شناخت کو چھپانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایٹمی توانائی ایجنسی نے چند برس پہلے ڈاکٹر محسن تک رسائی طلب کی تھی ایران نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر رسائی دینے سے انکار کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ اسرائیلی فوجیں ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ حملہ براہ راست بھی ہو سکتا ہے مشرق وسطیٰ میں پراکسیز کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا جائزہ لیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی اس خبر کے بعد ہی آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر حسین دوگان نے کہا تھا کہ ایران پر حملہ مکمل جنگ ہوگا۔ افواہوں کی اس دھند میں عراقی وزیرخارجہ نے ماسکو کا دورہ کیا تھا جہاں روسی وزیر خارجہ سیرگی لاوروف نے امریکہ کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں چھیڑ چھاڑ سے باز رہے۔ ان سرگرمیوں کا نتیجہ محسن فخری زادے کے قتل کی صورت میں برآمد ہوا۔ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے بعد یہ ایران کو لگنے والا سنگین دھچکا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس خالی کرنے سے پہلے ایران پر حملہ کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کیلئے امریکہ براہ راست حملہ کرے گا یا پراکسیز کے ذریعے ایسا کرائے گا؟ یہ سوال بھی زیربحث ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب امریکہ اور اسرائیل نے پراکسیز کے ذریعے ایران کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ محسن فخری زادے کے قاتلوں کا نقش قدم اسرائیل تک پہنچنا قطعی عجب نہیں۔ یہ اسرائیل کا پرانا طریقہ واردات ہے اس طرح وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں فلسطین کے آزادی پسند قائدین کو قتل کر چکا ہے۔اسرائیل کے ایک عہدیدار نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ دنیا کو اسرائیل کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ ہم ایران کے جوہری پروگرام کیخلاف ضروری اقدامات جاری رکھیں گے۔ ایران کیساتھ چھیڑ چھاڑ سے اسرائیل اور امریکہ مشرق وسطیٰ میں آگ کا ایک نیا الاؤ روشن کر رہے ہیں جس کے اثرات صرف خلیجی ملکوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ ان مسلسل اشتعال انگیز کارروائیوں کا مقصد ایران کو مشتعل کرنا ہے۔ ماضی میں یہ طریقہ صدام حسین کیخلاف استعمال کیا جا چکا ہے۔ جب بغداد میں امریکی سفیر نے صدام حسین کو کویت پر حملے کا اشارہ دیا اور یوں صدام حسین کے خود اپنے جال میں پھنسنے کا آغاز ہوگیا۔ ایران کیخلاف مسلسل کارروائیوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایران کو اشتعال دلاکر اسرائیل یا کسی ہمسایہ عرب مملک پر براہ راست حملہ کرنے پر مجبور کیا جائے جس کے بعد وہی ہوگا جو صدام سے قذافی تک اور ان ملکوں کیساتھ ہوا۔ ایران کی قیادت نے فوری طور پر جوابی ردعمل کا شکار نہ ہونے کا راستہ اپنا کر اس دام میں آنے سے انکار کیا ہے۔ مسلمان دنیا کو شیعہ سنی میں بانٹ کر گرم کیک کی طرح ہڑپ کیا جا رہا ہے جب ضرورت پڑتی ہے تو سنی دوستی کا لبادہ پہن کر کام نکالا جاتا ہے اور نئی ضرورت پر شیعہ دوستی کا چولا پہن کر کام نکالا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ سے ایشیا اور افریقہ تک بالادست بنایا جائے جو کسر باقی رہے وہ بھارت کو طاقتور اور بالادست بنا کر پوری کی جائے۔ اس سکرپٹ میں مسلمان دنیا کیلئے کمی اور مزارع کا کردار تخلیق کیا گیا ہے اس کردار کا کام اپنے مستقبل سے بے خبر اور بے نیاز ہو کر ایک مسلمان ملک کی گردن دبوچے جانے پر تالیاں اور خوشی کے شادیانے بجانا ہے چہ جائیکہ کہ اس کردار کے ہاتھ میں ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار ہو۔ مسلمان دنیا کو اس بات کا احساس نہیں کی کہ وہ کس بے رحمی سے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے