Alan Faqeer

لوک گلوکارالن فقیرکی21ویں برسی

ویب ڈیسک (کراچی)پرسوز آواز اور منفرد انداز کے حامل صوفی گلوکارالن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے 21 برس بیت گئے ہیں۔

صوفیانہ کلام کے علاوہ انہوں نے اردو اور سندھی میں قومی گیت بھی گائے۔ انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

الن فقیر 1932ءکو سندھ کے ضلع جامشورو میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی۔الن فقیرنے جوانی میں فقیر تخلص کا انتخاب کیا اور گھر بار چھوڑ کر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت اختیار کرلی۔بھٹ شاہ میں ہی علن فقیر نے شاہ لطیف بھٹائی کا کلام گانا شروع کیا۔ان کی پرسوز آواز ریڈیو حیدر آباد تک پہنچی جس کے بعد انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔

الن فقیر کا والد ایک ڈھولچی تھے ۔ الن فقیر اگرچہ صوفی تھے لیکن انھوں نے فقیر تخلص کا انتخاب کیا۔ الن فقیر بنیادی طور پر ان پڑھ تھے لیکن خدا نے انھیں کمال کا حافظہ عطاء کیا تھا وہ جو ایک بات سن لیتے تھے ازبر ہو جاتی تھی وہ دربار شاہ عبدالطیف بھٹائی پر آنے والے عقیدت مندوں سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنتے اور پھر اسے گاتے تھے،وہ 20برس تک اسی دربار پر رہ کرروحانی فیض حاصل کرتے رہے۔

الن فقیر نے اردو اور سندھی میں قومی گیت بھی گائےان کا جھومتے ہوئے گائیکی کا منفرد انداز بہت پسند کیا گیا۔

نامور صوفی گائیک الن فقیر نے پاپ گلوکار محمد علی شہکی کے ساتھ مل کر گانا گایا تو وہ انہیں شہرت کی بلندیوں تک لے گیا۔

انہوں نے زیادہ تر سندھی زبان میں گلوکاری کی لیکن اردو زبان میں ان کا گایا ہوا ’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا ‘ انہیں مقبول کر گیااس کے علاوہ ان کی خوبصورت آواز میں گایا گیا ملی نغمہ ’اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا‘ خوب مشہور ہوا جو آج بھی یوم آزادی کے دن لہو گرماتا ہے۔

1980 میں انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ الن فقیر 4 جولائی 2000 کو اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔