4 424

باتیں بہت ہو چکیں صاحب!

دودن ادھر وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ”قانون میں موجود سقم کی وجہ سے قبضہ گروپ ضمانتوں پر چھوٹ جاتے ہیں، سزائیں بھی بہت کم ہیں اس لئے انہیں کوئی خوف ہی نہیں، یہاں امیر آدمی جو مرضی کرتا پھرے کوئی پوچھنے والا نہیں قانون کی لاٹھی صرف غریب کے لئے ہے لیکن اب ہم ایسا قانون لارہے ہیں جس سے طاقتور نہ صرف انصاف کے کٹہرے میں ہوں گے بلکہ انہیں قانون کا خوف بھی ہوگا“ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں کرپشن کی فائل گم ہوجاتی ہے یا ریکارڈ کو آگ لگ جاتی ہے“ ویسے کیا انہیں یاد ہے کہ قانون میں موجود جن سقموں کی نشاندہی انہوں نے اگلے روز کی ہے انہیں کے خاتمے کے لئے ہی وہ 22سال جدوجہد کرتے رہے اور اب پچھلے تین برسوں سے ان کی جماعت اتحادیوں کے ہمراہ اقتدار میں ہے۔ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کے دوسرے دوراقتدار کو تین سال ہوگئے اس سارے عرصہ میں انہوں نے قبل ازیں خیبر پختونخوا میں اور اب ملکی سطح پر ان قوانین میں تبدیلی کیلئے کیا کیا؟ محض شکوے اور شکایات یا نظام اور قانون میں موجود سقموں کی نشاندہی سے وقت گزارتے رہنا ہی کافی نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی اپنے منشور اور جدوجہد کے دوران کئے گئے وعدوں پر عمل کے لئے اقدامات کرتے۔ اپوزیشن سے ان کے اختلافات جتنے بھی سنگین ہوں لیکن اگر اپوزیشن قانون سازی کے عمل میں تعاون نہ کرتی تو عوام الناس یہ جان لیتے کہ کون طبقاتی نظام اور قانون میں تبدیلی چاہتا ہے اور کس کو یہ تبدیلی پسند نہیں۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ اس ملک میں قبضہ گروپوں کو ضمانت مل جاتی ہے البتہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ معاملہ صرف قبضہ گروپوں تک محدود نہیں یہاں طاقتور کے لئے قانون الگ ہے اور کمزور کے لئے الگ۔ اس دوہرے معیارنے ہی مسائل پیدا کئے۔ مثال کے طور پر رنگ روڈ راولپنڈی کے حالیہ سکینڈل کی تحقیقات کے جو نتائج ان کے ایک مشیر شہزاد اکبر پیش کررہے ہیں اور اس حوالے سے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ کے تحت پچھلے چند دنوں میں جو کارروائی ہوئی اس پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس ضمن میں لوگوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور تحفظات کو بھی یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب یہ سکینڈل سامنے آیا تھا تو اس میں ایک مشیر اور ایک وفاقی وزیر بھی الزامات کی زد میں تھے۔ وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقات مکمل ہونے تک اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ وزیر غلام سرور خان اپنے منصب پر موجود رہے، کہا یہ جارہا ہے کہ رنگ روڈ سکینڈل کی تحقیقات پر وفاقی وزیر اثرانداز ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ یہ محض مخالفین کا الزام ہو پھر بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم اس سکینڈل کی ازسرنو آزادانہ تحقیقات کروائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ یہ بجا ہے کہ معاشرے میں موجود طبقاتی خلیج کے نظام پر اثرات موجود ہیں کون سا محکمہ ہے جہاں ایک عام شہری اور اشرافیہ کے کسی فرد کو مساوی سمجھا جاتا ہو۔ نظام حکومت اور قانون کی عملداری ہر دو پر موجود سیاسی اثرات اور پسندوناپسند کی وجہ سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ تھانہ کچہری، دوسرے سرکاری دفاتر غرض یہ کہ ہر جگہ امیر کے لئے الگ قانون اور رویہ ہوتا ہے اور غریب کے لئے الگ۔ وزیراعظم اگر صرف سانحہ ساہیوال کی تحقیقاتی رپورٹ اور فیصلے کو ہی دیکھ لیں تو یہ جان لیں گے کہ کیسے مظلوموں کا خون رائیگاں گیا اور قاتل بری ہوگئے۔ اسی طرح کی درجنوں مثالیں جو ان کے اپنے دورمیں سامنے آئیں، پیش کی جاسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قانونی سقموں اور دیگر مسائل کا سنجیدہ حل تلاش کرکے ہی ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے جو اپنی مثال آپ ہو، لوگوں کا یہ شکوہ بھی درست ہے کہ اصلاح احوال اور گڈگورننس کے لئے عملی کام کی بجائے پچھلے تین برسوں سے انہیں جذباتی تقاریر سے بہلایا جارہا ہے۔ لوگ یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ حکومت کو بہتری لانے، قانون سازی اور بلاامتیاز احتساب و انصاف سے روکا کس نے ہے۔ مثلا ادویات، گندم، چینی اور آٹا کے سکینڈل تو خود ان کے دور میں ہوئے ان میں ملوث کتنے لوگوں کے خلاف قرارواقعی کارروائی ہوپائی؟ وزیراعظم اوران کے رفقا کو ٹھنڈے دل سے یہ سمجھنا ہوگا کہ تقاریر بہت ہوگئیں اگر وہ اپنے منشور کے مطابق ایک حقیقی جمہوری فلاحی معاشرہ قائم کرنے میں ”سنجیدہ“ہیں تو ”انقلابی خطوط“پر کام کریں۔ کسی تاخیر کے بغیر ایسی قانون سازی جس سے قانون کی نظر میں امیروغریب یکساں حیثیت کے حامل ہوں۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال