logo 89

ڈنگ ٹپائو نہیں سنجیدہ کارروائی کی ضرورت

صوبائی دارالحکومت پشاور میں زمینوں پر قبضے اور خرید و فروخت میں باوردی افسران اور ماتحت عملے کیجانب سے سرکاری حیثیت کے ناجائز استعمال کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ چشم کشا ہے ۔رپورٹ میں متعلقہ عناصر کے نام عہدے اور کرتوتوں کی تفصیل موجود ہے رپورٹ کی کاپی وزیر اعظم ‘ وزیراعلیٰ کو ارسال کرنے کے علاوہ اور اخبارات کوبھی جاری کی گئی ہے اگرچہ وزیراعظم کے احکامات پر اعلیٰ سطحی انکوائری شروع کر دی گئی ہے لیکن ا بھی تک ان عہدیداروں کو نہ تو ان کے عہدوں سے الگ کیا گیا ہے اور نہ ہی جہاں زمینوں پر قبضے اور لین دین میں ملوث ہونے کا الزام ہے وہاں سے ہٹانے کی کوئی اطلاع ہے قطع نظر اس کے کہ رپورٹ اور انکوائری کے نتائج کیا نکلتے ہیں ایک سنجیدہ ادارے کی رپورٹ کو کم از کم اتنی سنجیدگی سے تو لینا چاہئے یا پھر وزیر اعظم کے احکامات پر ان کو اگر کام سے روکا نہیں گیا تو کم ازکم ان کا تبادلہ ہی کر دیا جاتا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ایک طرف زرعی اراضی کے تحفظ کے لئے سخت قوانین وضع کئے جارہے ہیں اودوسری جانب شہر کے آدھے حصے کی زرخیز زمینوں پر کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے جس میں اراضی کے حصول کے لئے پولیس بھی مبینہ طور پر مددگار بنی ہوئی ہے ۔ یہ فوری نوٹس لینے اور کارروائی کا حامل معاملہ ہے جس میں تاخیر سے صوبائی حکومت کی اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی پر سوالات اٹھنا فطری امر ہو گا۔ جتنا جلد ہو سکے اس رپورٹ کی بناء پر کارروائی کی جائے تاکہ کم از کم حکومت کی سنجیدگی تو سامنے آئے۔
زکوةکی تقسیم میں خورد برد
ضلع مہمند میں زکواة کمیٹیوں کے عہدیدارروں کی جانب سے بے سہاراافراد کو زکواة کی مد میں دی جانے والی رقم ہڑپ کرنے کی تصدیق صوبے میں زکواة کمیٹیوں کی جانب سے زکواة کی تقسیم میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔انکوائری رپورٹ میں ضلعی زکواة آفیسر کو ضلع مہمند کے علاقہ عڑوبی درہ ، کڈی خیل اور اتمر خیل کے لوکل زکواة کمیٹیوں کے چیئرمین سے 6لاکھ69ہزار روپے وصول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ہمارے تئیں صوبے کے جس علاقے میں بھی زکواةکمیٹیوں کے حوالے سے چھان بین کی جائے اور مستحقین سے معلومات حاصل کی جائیں تو بیشتر کمیٹیوں پر خورد برد کے الزامات لگیں گی جن کی تحقیقات کے نتائج محولہ انکوائری رپورٹ سے شاید ہی مختلف ہو۔ اس رپورٹ کی روشنی میں جہاں جہاں سے شکایات آئیں وہاں انکوائری وتصدیق کا عمل شروع کرکے اس امر کا اطمینان کر لیاجائے کہ زکواة کی تقسیم شفاف ہوئی ہے اور اگرایسا نہ ہوا ہو تو وہاں کے بھی ذمہ دار عناصر سے وصولی کی جائے ۔ حکومت کو زکواة کمیٹیوں میں دیانتدار اور خدا ترس افراد شامل کرنے پربھی خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
غگ ایکٹ کے عملی نفاذ پرتوجہ کی ضرورت
پشاور میںقبیح رسم غگ کے خلا ف ایکٹ بننے کے باوجود واقعات میں کمی نہ آنے کی وجہ اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے کہ اس پرعملدرآمد میں کوتاہی برتی جارہی ہے ۔پشاور میں 24گھنٹوں کے دوران تین لڑکیوں پرغگ رسم کے تحت مرضی سے شادی نہ کرنے اورزبردستی کی شادی کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے ۔ملزمان دھمکیاں دے رہے ہیںکہ کسی اور سے شادی طے ہوئی تو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے ‘ پولیس نے ملزموں کے خلاف غگ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر لئے ہیںاسی طرح کے واقعات کے خلاف پولیس سے مدد لینے میں بھی کوتاہی اور احتراز اپنی جگہ درست امر ہے اس ایکٹ کے ذریعے مخالفین پر بے جا الزام لگا کر بدلہ چکانے کے بھی امکانات موجود ہیں لیکن جب معاملہ پولیس کے پاس آئے تو اس کی تحقیقات کے بعد ہی اصل صورتحال کاعلم ہو سکتا ہے اور ملزمان کو سزا ہوسکتی ہے ۔ غگ ایکٹ کا عملی نفاذ کرکے ہی اس قبیح رسم کا سہارا لینے والوں کا تدارک ممکن ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال