logo 89

مشرقیات

پہلے پہل یہ یورپ کی باتیں ہوا کرتی تھیں کہ نوجوان اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہوم چھوڑ دیتے تھے اب ہمارے ہاں بھی معمر والدین کو خود ان کے اپنے ہاتھوں پروردہ بچے بوجھ سمجھنے لگے ہیں اور ان کوگھروں سے بے دخل کرنے لگے ہیں جس کے انسداد کے لئے حکومت کو قانون سازی کرنی پڑی یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ پاکستان بھی اسی دنیا کا ایک ملک ہے، جہاں رہنے والوں میں سے کئی لوگ خود پر عائد ہونے والے خاندانی، سماجی، مذہبی اور قانونی فرائض کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جن والدین نے بچپن میں اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کو جوان کیا ہوتا ہے، انہی کے احترام، اچھے برتائو اور خدمت سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں مسائل کو صرف قانون سازی سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان قوانین پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ معاشرے میں اقدار کی تنزلی اور مادہ پرستی کی دوڑ، دونوں کے تدارک کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ مادہ پرستی کی دوڑ تو کہیں ختم نہیں ہوتی اور احسان کا بدلہ صرف احسان ہی ہونا چاہیے۔ عہدوں میں ترقی، زیادہ بڑا گھر، بڑی گاڑی اور زیادہ تنخواہ ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ انسان کی انسانیت تو کسی بھی مالی حالت میں ماں باپ کی عزت اور خدمت، اپنے خاندان کے ساتھ برتائو، عزیزوں دوستوں کے ساتھ اچھے رویے اور سماجی سطح پر دوسرے انسانوں کے لیے برداشت اور احترام کی سوچ سے ظاہر ہوتی ہے۔سماجی تبدیلیوں کے دور سے گزرنے والے ترقی پذیر معاشروں کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں مسلمہ سماجی اور خاندانی اخلاقیات سے دور ہوتے جانا بھیڑ چال بن جاتا ہے۔ کامیاب، انسان دوست اور فلاحی معاشروں ہر نسل کے افراد اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان فرائض کی انجام دہی میں کسی ایک فرد کی کوتاہی بھی کئی دوسرے انسانوں اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی جنہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ملکی معاشرے کی صدیوں پرانی اخلاقی اور خاندانی اقدار ابھی زندہ ہیں، آئندہ وہ بھی اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں اپنے گھروں سے بے دخل کیے جانے یا بدسلوکی کے بعد اپنے لیے اولڈ ہوم تلاش کرتے پھریں۔کوئی انسان اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کے ساتھ وہی نہ ہو جو انہوں نے دوسروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے خاص طور پر ماں باپ سے سلوک آج بچے اپنے والدین کے ساتھ سلوک کے ذریعے جو بو رہے ہیں کل کو خود انہی کو اسے کاٹنا ہو گا گندم بوئو گے تو گندم جو بوئو گے جو گندم از گندم جو از جو۔کہا جاتا ہے جووالد کی قدر کرتا ہے وہ کبھی غریب نہیں ہوتا اور جو ماں کی قدر کرتا ہے وہ کبھی بدنصیب نہیں ہوتا۔فیصلہ آپ کا اور آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ نے بڑھاپا کیسے گزارنا ہے ابھی سے تیاری کریں۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو