p613 395

ویکسی نیشن سے انکاراورکرنے کا کام

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)کے چیئرمین اسد عمر نے خبردار کیا ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد31اگست سے قبل ویکسی نیشن کرالیں بصورت دیگر انہیں کام کرنیکی اجازت نہیں ہو گی۔اسد عمر نے ویکسین سے متعلق کہا کہ جو لوگ اب بھی ویکسین کی اہمیت نہیں سمجھ رہے ان کیلئے مخصوص نوعیت کی بندش کا وقت آگیا ہے ملک میں پولیو کے قطرے بلاوجہ کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کرمتنازعہ ہونے کے باعث برسوں بعد بھی اس غلط فہمی کا ازالہ نہ ہوسکا ہے اب کورونا سے بچائو کے ویکسین لگانے سے فرار کی بھی ایک ممکنہ وجہ یہی ہے اس حوالے سے حکومت کو لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے اور شعور اجاگر کرنے کی ا یک مرتبہ پھرسعی کرنی چاہئے جہاں تک اکتیس اگست سے پابندیوں کا سوال ہے اگر بات لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کی نوبت آہی جائے تو پھر حکومت کے پاس اسے اختیار کرنے کے علاوہ چارہ کار کوئی نہیں رہے گا قبل اس کے اس دورانیے میں حکومت کو اس امر کی سنجیدہ سعی میں تیزی لانے کی ضرورت ہے کہ حکومت مختلف عوامی مقامات اور گھر گھر جا کر ویکسین لگوانے کی مہم چلائی جائے ۔ خیبر پختونخوا میں خاص طور پر بعض لوگ پراپیگنڈے کا آسان ہدف رہتے ہیں یہاں اس حوالے سے خاص طور پر اقدامات کئے جائیں معلوم نہیں ہسپتالوں میں بیٹھ کرجعلی ویکسین لگانے والوں کو کسی پارک ‘ بازاروں اور بی آر ٹی سٹیشنز پر کیمپ لگا کر عوام کو ویکسین لگانے کی ترغیب دینے اور ویکسی نیشن کی خدمات کی فراہمی میں کیا امر مانع ہے اور صوبے میں اس حوالے سے عملی اقدامات کا فقدان کیوں ہے اس کی وجوہات کا جائزہ لینے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے کر اور ان کے قابل رسائی مقامات پر کیمپ لگا کر ان کو ویکسین لگانے کی مہم شرع کرنی چاہئے ۔ حکومت پابندیاں لگانے میں اس وقت ہی حق بجانب ہو گی جب پہلے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اس کے بعد ہی منکرین کے خلاف مہم اور پابندیاں لگائی جاسکیں گی۔
انٹراپارٹی انتخابات ضروری ہیں
الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر نوٹس کا اجراء قابل توجہ امر ہے۔ الیکشنز ایکٹ 2017 کی رو سے سیاسی جماعت کے عہدے داروں کے لیے وفاقی صوبائی اور مقامی سطح پر ہر پانچ سال بعد انٹرا پارٹی انتخابات کرانا ضروری ہیںمگرکم ہی کوئی سیاسی جماعت اس قانونی تقاضے کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے جماعتی بنیاد پر انتخابات کا کوئی شفاف طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں متبادل قیادت کے نظام کا نہ ہونا بذات از خود بڑا مسئلہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ قومی سیاسی جماعت کی حقیقی تعریف پر وہی جماعت پوری اتر سکتی ہے جس کے پاس اوپر سے نیچے تک قیادت کا ایک نظام موجود ہو۔ سیاسی جماعت کو کسی خاندان شخصیت یا گروہ کا مقید بھی نہیں ہونا چاہییاس وقت ملک کی مین سٹریم کی سیاسی جماعتیں جس طرح خاندانی بلکہ شخصی گرفت میں ہیں وہ کس سے پوشیدہ نہیں ہمارے سیاسی نظام کی یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک کے لیے جس سیاسی کلچر اور سیاسی نظام کو پسند کرتی ہیں اس کا اطلاق خود پر کیوں پسند نہیں کرتیں؟۔ہماری سیاسی جماعتوں کا مطمح نظر محض حصول اقتدار تھا یا ملک و قوم کی خدمت ہے یہ کوئی راز نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری ماحول کی نایابی کا اثر اوپر سے نیچے تک رہنماوں کے رویے میں بھی نظر آتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ رہنماوں کی سطح پر نئی سوچ اور قیادت سے خوف پایا جاتا ہے۔ اگر یہ نفسیاتی رکاوٹ درپیش نہ ہو تو ہمارے ملک میں بنیادی جمہوریت کو فروغ ملتا۔ چونکہ انٹرا پارٹی انتخابات قانونی تقاضا بھی ہے اس لیے اس کی تعمیل میں مزید ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی قانونی ذمہ داری بھی ہے اور جمہوری کلچر کی جانب سفر کا پہلا قدم بھی۔توقع کی جانی چاہئے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں نمائشی طور پر پارٹی قیادت کا انتخاب کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں پارٹی انتخابات کی ضرورت کو سمجھیں گی اور انٹرا پارٹی انتخابات کے ذریعے حقیقی قیادت کے انتخاب کو فروغ دے کر اپنی سیاسی جماعتوں اور ملک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیں گی۔
ایل آر ایچ کا وقار مجروح نہ ہونے دیا جائے
صوبے کے سب سے بڑے اور قدیم تدریسی ہسپتال کے حوالے سے اب تقریباً روزانہ کی بنیاد پرایسی خبریں اور اطلاعات سامنے آنے لگی ہیں جس سے اس ہسپتال میں آوے کا آوا بگڑے ہونے کا تصور اپنی جگہ اس ہسپتال کا وقار بھی دائو پر لگ رہا ہے تازہ واقعہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کمپیوٹر آپریٹر خود ساختہ ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بننا ہے تاہم ہسپتال ا نتظامیہ نے بتایا ہے کہ انہیں ڈی ایم ایس نہیں بلکہ نائٹ شفٹ میں ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا ہے جنہوں نے خود ہی ڈی ایم ایس کے بورڈ پر اپنا نام درج کرایا ہے ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے وضاحت تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں اس موقع پر اگرانتظامیہ یہ وضاحت بھی جاری کرتی کہ خود ساختہ ڈی ایم ایس کے خلاف کیا تادیبی کارروائی کی گئی نیز ہسپتال میں جس کے دل میں جو عہدہ بھائے اپنے نام کے ساتھ بورڈ پر لکھوائے کیا کسی منظم ادارے میں اس طرح کے حرکت کی کوئی گنجائش ہے علاوہ ازیں کمپیوٹر آپریٹر کو انتظامیہ نے کیا افتاد پڑنے پر ایڈمنسٹریٹرتعینات کر دیا اور کیا اس طرح کے فرد کی اس طرح کی تقرری اور وہ اس کام کے لئے موزوں ہو سکتے ہیں بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں بہتر ہوگا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے وقار کا خیال رکھا جائے اور ایسے تجربات اور اقدامات نہ کئے جائیں جس کا لوگ مذاق اڑانے لگ جائیں۔
پٹرول ‘ طلب و رسد کا عدم توازن
سوات میں سات سو روپے لیٹر پٹرول کی فروخت کے بعد کاٹلنگ میں پٹرول کی شدید قلت کے باعث پٹرول فی لیٹر دوسو روپے فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے بتایا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے لوگ پٹرول کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیںپٹرول کی قلت آئل کمپنیز کی جانب سے کاٹلنگ کے پٹرول پمپس میں تیل کی کم مقدار کی ترسیل ہے بازار میں بلیک پر فی لیٹر پٹرول دو سو روپے میں فروخت ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔صوبے میںپٹرول کی طلب ورسد کا توازن بگڑنے کے باعث پٹرول اضافی قیمت پر فروخت ہو رہی ہے جس کی روک تھام کا بہتر طریقہ جلد سے جلد پٹرول کی سپلائی میں اضافہ ہے جس کے بعد ہی بحران کا خاتمہ ہو گا اور قیمت معمول پر آئے گی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟