Mashriqyat

مشرقیات

افغانستان کے ایک سابق وزیرمواصلات سید احمد شاہ سادات نے جرمنی میں سائیکل پر پیزا ڈیلیوری شروع کر دی ہے۔بیرون ملک جا کرسائیکل پر پیزا پہنچانے کی تصویر کس تصور کے تحت کھینچی گئی تھی اخبارات میں اسے کس نظر سے دیکھا اور شائع کیا گیااس حوالے سے ہرایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے مگر بابائے مشرقیات کو یہ تصویربڑی بھلی لگی کہ محنت میں شرم کیسی کابل میں وزارت ملی اور غریب الدیار ہو کر پیزا پہنچانا پڑاتوکیا ہوا۔ انسان پر طرح طرح کے حالات آتے ہیں یہ تو شکر ہے کہ پدرم سلطان بود کی اس نے سوچا ہی نہیں اور نہ ہی ان کو یہ زعم تھا کہ آخر وہ جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں حکمران رہے ہیں تو پیزا کیسے پہنچائیں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کو اگر خدانخواستہ کبھی قدرت نے مجبور کیا تو وہ پیزا بھی پہنچانے کے قابل نہیں پیزا پہنچانا کوئی برا کام نہیں ہمارے ہاں کوئی ایک مرتبہ صوبائی وزیر بن جائے تو ایک تو ان کا دماغ آسمان پہ ہوتا ہے اور دوسرا اگلی نسلوں کے لئے بھی اتنا مال جمع کرتا ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی بیٹھ کے کھاتی ہیں بہت کم ایسے دیانتدار ہوں گے کہ مال حرام اور لقمہ حرام سے بچنے کی کوشش کی ہوعام مشاہدہ تو یہ ہے کہ سرکاری خزانہ جس جس کے ہاتھ لگے آسرا کسی نے بھی نہیں کیا۔ افغانی وزیر اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی اگر آج پیزا بیچنے پر مجبور ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے اور نہ ہی عوام کا مال کھایا ہے ان کے پاس رقم ہوتی تو پیزا ڈیلیور کرنے کی بجائے پیزا کی دکانیں کھول لیتا اور اس کی شاخیں اہم شہروں میں ہوتیں ہمارے ہاں وزراء کوچھوڑیں لوگ سرکاری نوکری میں لوگ کیا کچھ کرتے ہیں اور کتنا کماتے ہیں اتنا کماتے ہیں کہ کیا بتائیں۔پیزا ہی کے کاروبار میں ان کی شہرت تو سب نے سن ہی لی ہو گی مگر مجال ہے کہ کسی نے پوچھا بھی ہو کہ بھائی رقم کہاں سے آئی تمہارے سارے سروس کی تنخواہ ‘ مراعات و پنشن بھی اکٹھی کی جائے تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں بنتا صرف یہی نہیں اور بھی ہیں پاکستان میں مشکل ہی سے کسی کے پاس منی ٹریل ہو گی منی ٹریل اسی کے پاس ہوتی ہے جنہوں نے محنت سے کمایا ہواور جائز طریقے سے کوئی کمائے یا کچھ بنائے اس کی منی ٹریل بنانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی خود بخود بنتی ہے پیسہ کہاں سے آیا کہاں لگا سیدھی سی بات ہے۔افغان وزیر کے پیزا بوائے بنتے دیکھ کر لوگوں کوعبرت کرنے کی ضرورت ہے ‘ دنیا میں اونچ نیچ ہوتی ہے اور یہی دنیا کا دستور ہے یہاں اونچ نیچ کی خیر ہے اگلے جہاں میں اونچ نیچ مستقل معاملہ ہوتا ہے اس لئے کسی کو حق دینا ہو اور کسی کا حق مارا ہو تو اب بھی وقت ہے لمحہ موجود میں ازالہ ہو سکتا ہے جب قدرت کی بے آواز لاٹھی اٹھے گی تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے