Idhariya

بابائے حریت کی رحلت

معروف کشمیری حریت رہنما اور جدوجہد آزادی کشمیر کے اہم ستون سید علی گیلانی کا انتقال حریت و حمیت کی علامت اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی توانا آواز کا خاموش ہونا ہے جن کی کمی شاید ہی پوری ہو سکے ان کی وفات کے بعد بھی قابض بھارتی فوج پر ان کا رعب و دبدبہ کم نہ ہوااورقابض بھارتی فوج نے ان کے جنازے سے بھی خطرہ محسوس کرتے ہوئے جوطرز عمل اختیار کیا وہ نہایت ہی شرمناک ہے اس کی کسی بھی مہذب معاشرے میں گنجائش نہیں کہ کسی کے آخری رسوم بھی ادا نہ کرنے دی جائے اور ان کی آزادانہ تدفین کے عمل میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ قابض بھارتی فوج کے خلاف سیاسی جدوجہد کی علامت تصور کیے جانے والے سید علی گیلانی تحریک حریت جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی تھے۔وہ گزشتہ کئی سالوں سے گھر میں نظربند تھے، وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے جابرانہ قبضے کے سخت مخالف تھے اور انہوں نے کئی سالوں تک کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کی قیادت کی۔بھارتی جبر اور تسلط کے خلاف ڈٹے رہنے والے سید علی گیلانی گزشتہ گیارہ سال سے گھر میں نظر بند اور کئی ماہ سے علیل تھے۔انہوں نے 1960ء کی دہائی میں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی تحریک شروع کی اور رکن اسمبلی کی حیثیت سے بھارت سے علیحدگی کا بھی مطالبہ کیا۔وہ1962کے بعد دس سال تک جیل میں رہے اور اس کے بعد بھی اکثر انہیں ان کے گھر تک محدود کردیا جاتا تھا۔ کشمیر کے عوام اور ان کے حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کرنے والے حریت پسند سید علی گیلانی بھارتی فوج کی قید اور صعوبتوں کو برداشت کیا لیکن اپنے عزم پر قائم رہے۔سید علی گیلانی طویل عرصے تک کشمیر میں دو درجن سے زیادہ ہند مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے۔ تاہم گزشتہ برس انہوں نے حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم اپنے پیغام میں واضح طور پر کہا تھا کہ اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسب استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔اس وعدے کو وہ تادم مرگ نبھایا بلکہ بعد از مرگ بھی نبھایا اور اب ان کا مزار بھی حریت پسندوں کے لئے حوصلہ اور استقامت کی علامت ثابت ہو سکتا ہے جس سے بھارت کا خائف ہونا فطری امر ہے۔ انہیں کشمیر کی سیاست میں ایک سخت گیر موقف کا حامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا اور وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دئیے جانے کے بہت بڑے حامی تھے۔علی گیلانی اپنے سیاسی سفر میں اکثر جیل جاتے رہے اور عمر کی تقریباًایک دہائی انہوں نے قیدخانوں میں گزاری۔مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں بہت سے قائدین کی قربانیاں فقید المثال ہیں لیکن سید علی گیلانی ان سب میں نمایاں اور سب سے ممتاز سمجھے جاتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی تاریخی جدوجہد میں ایسے بے شمار پہلو ہیں جو ان کے کردار کی عظمت کو نمایاں کرتے ہیں۔سید علی گیلانی قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح ان چند قائدین میں بھی نمایاں ترین ہیں جنہوں نے آزادی کے عظیم مقصد کے لئے ہر امکان کو آزمانے کی کوشش کی جیسے ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں شرکت اوراسمبلی میں اعلان آزادی کے ذریعے صورت حال میں تبدیلیجیسے امکانات کی حتی المقدور سعی ہے گیلانی صاحب کی دوسری خوبی جو انہیں ممتاز کرتی ہے، وہ تھی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ غور و فکر بلکہ فکری قیادت۔آج دنیا تسلیم کرتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل سہ فریقی مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ غیر معمولی تجویز ان ہی کے ذہن رسا میں پیدا ہوئی۔گیلانی صاحب کا شمار مقبوضہ کشمیر کے ان قائدین میں ہوتا ہے جن کی تقریباً پوری زندگی نظر بندی میں گزر گئی لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ ان کے کردار کی عظمت کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جب جنرل مشرف نے مسئلہ کے آئوٹ آف باکس سلوشن کے نام پر اقوام متحدہ کی قرارداد سے روگردانی کر دی تو وہ اس وقت بھی اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔اللہ تعالیٰ اس مرد حریت کوجنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے۔ انہوں نے جان جان آفریں کے سپرد کر کے بھارت کے جبر سے آزادی حاصل کر لی ان کا نام تا آزادی کشمیر تک جدوجہد کے استعارے کے طور پر استعمال ہو گا۔دعا ہے کہ ان کی قربانیوں کے طفیل اللہ پورے کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرائے، آمین۔عظیم کشمیری حریت پسند رہنماایک عہد ساز شخصیت تھے اس بزرگ اور مدبر سیاستدان کی وفات کشمیر اور پاکستان کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی بشری خطائوں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور ان کی جدوجہد کے طفیل مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی استبداد اور ظلم و ستم سے چھٹکارا دلائے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع فرمائے ۔ آمین۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟