Idhariya

آئی ایم ایف پروگرام کے منفی اثرات

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ریکارڈ اضافے کے بعد ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، پٹرول 10.49روپے ، ہائی سپیڈ ڈیزل 12.44روپے ، لائٹ ڈیزل 8.84روپے، مٹی کے تیل کی قیمت 10.95روپے فی لیٹر تک بڑھ گئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول 137.79 روپے فی لیٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل 134.48روپے ، لائٹ ڈیزل 108.35روپے ، مٹی کا تیل 110.24روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی جو تجویز پیش کی تھی حکومت نے اس سے کئی گنا زیادہ اضافہ کیا ہے، اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں 5.90روپے اضافے کی تجویز دی تھی تاہم حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 10.49روپے اضافہ کیا ہے، اگر حکومت اوگرا کی تجویز کردہ قیمت کے مطابق قیمتوں میں اضافہ کرتی تو کسی حد تک عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا، ریکارڈ اضافے کے باوجود حکومت کا مؤقف ہے کہ اسے عوام کا احساس ہے ، اسی لیے عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں کم قیمت بڑھائی گئی ہے۔
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے جواز پیش کیا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت اکتوبر 2018ء کے بعد سب سے زیادہ 85ڈالرز فی بیرل ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیزی کو درست تسلیم کر لیا جائے تو تب بھی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مشکل وقت میں عوام کو جس قدر ریلیف فراہم کر سکتی ہے ،اس سے پہلو تہی نہ برتے، اس وقت حکومت عوام سے فی لیٹر پٹرول پر 25روپے بائیس پیسے ٹیکس، ڈیوٹیز ، مارجن اور لیول وصول کر رہی ہے، کیونکہ فی لیٹر پٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 112روپے 57پیسے بنتی ہے، جب کہ عوام کو 137.79 روپے فی لیٹر پٹرول فراہم کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو اسی نکتے پر حکومت کے لتے لیتے تھے ۔وزیر اعظم عمران خان اس وقت پٹرولیم مصنوعات کے اعداد و شمار پیش کر کے حکومت پر دبائو ڈالتے تھے کہ وہ فی لیٹر ساٹھ روپے سے زیادہ ٹیکس لے رہی ہے، اب جب کہ ان کی حکومت ہے تو وہ بھی ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چل کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی بجائے سارا بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر آئی ایم ایف پروگرام کا نتیجہ ہے، کیونکہ پاکستان کی طرف سے بجلی ٹیرف میں 1.39روپے فی یونٹ اضافہ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں میں 10.49سے 12.44روپے تک اضافہ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف میکرو اکنامک فریم ورک سے مطمئن نہیںہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام سے مستفید ہونا ہے تو اس کی مزید کڑی شرائط کو تسلیم کرنا ہو گا، چونکہ پاکستان کو اس وقت ڈالرز کی اشد ضرورت ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اسے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر مل جائیں، اس مقصد کے لیے سیکرٹری خزانہ آئندہ چند روز تک واشنگٹن میں قیام کریں گے تاکہ مفاہمت اور ایم ای ایف پی پر اتفاق رائے کے لیے آخری کوشش کر سکیں، سیکرٹری خزانہ یقیناً آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکیج حاصل کر کے ہم اس کے چنگل میں بری طرح پھنس گئے ہیں، کیونکہ آئی ایم ایف نے قرض کے حصول کے لیے جو کڑی شرائط عائد کی ہیں، اگر حکومت اسے پورا کرتی ہے تو عوام کی قوت خرید جواب دے دے گی لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کرتی تو ملنے والی قسط کو روک لیا جاتا ہے ، یا طے شدہ رقم فراہم کرنے کی بجائے بہت کم رقم دی جاتی ہے اور احساس دلایا جاتا ہے کہ گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے پوری قسط نہیں دی جا سکتی۔ یوں دیکھا جائے تو ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جو ”نہ جائے مانندن نہ پائے رفتن” کے مترادف ہے۔
آئی ایم ایف حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شرائط پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پروگرام معطل بھی ہو سکتا ہے، آئی ایم ایف نے 36ماہ کے توسیعی فنڈ انتظامات کو مکمل کرنے کے لیے پاکستان کو 21جائزے مکمل کرنے کا ہدف دیا ہے ، ان اہداف کے حصول میں معمولی کمی بیشی کی صورت میں آئی ایم ایف سخت ردعمل دے سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ایما پر دسمبر تک مہنگائی اس قدر بڑھ جائے کہ عوام بلبلا اٹھیں گے، حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ پٹرولیم مصنوعات کی حالیہ قیمتوں میں اضافے سے تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقات کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی ، کیونکہ بیسیوں اشیاء ایسی ہیں کہ جن کا براہ راست تعلق پٹرولیم مصنوعات سے ہے۔ اشیائے خور و نوش ، پبلک ٹرانسپورٹ اور گڈز ٹرانسپورٹ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر انحصار کرتی ہیں، حکومت لاکھ تسلی دے کہ اس نے اشیائے خور و نوش پر سبسڈی فراہم کی ہے تاہم جب سبزی اور فروٹ کی ترسیل میں استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ ہی مہنگی ہو گی تو پھر منڈیوں میں بیٹھے آڑھتی سبزیوں و پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گے ، یوں دیکھا جائے تو کاروباری حضرات کو کسی قسم کا نقصان نہیں اٹھانا پڑتا کیونکہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہوتا ہے تو وہ اسے جواز بنا کر کئی گنا زیادہ اضافہ کر دیتے ہیں جو کاروبادی حضرات کیلئے سود مند ثابت ہوتا ہے، تنخواہ دار اور کم آمدن والا طبقہ ہی مہنگائی سے متاثر ہوتا ہے جس کی تعداد کروڑوں میں ہے، حکومت کو چاہیے کہ ان کروڑوں لوگوں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر معاشی پالیسی ترتیب دے تاکہ عوام کو عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی نصیب ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار