سچ تو پھر یہی ہے

سندھ میں”کالا کا منہ کالا” کا کھیل شروع ہوچکا بھائی الطاف حسین کے باغی نئی آب وتاب کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ پیپلز پارٹی فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کئے بیٹھی ہے ۔اس دوران ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنونیئر عامر خان نے پاکستانی تاریخ کے اس حصے کے اوراق الٹے جس پر کبھی اتفاق رائے نہیں رہا۔ قربانیوں کی داستان ‘ مظلومیت کی دہائی پاکستان بنانے کا احسان اور مہاجر ہونے پر فخر کا اظہار ہمارے ہاں سنجیدہ مکالمہ ہمیشہ سے زہر قاتل سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ پاکستان جس سرزمین پربنا اس کے لوگوں کا باقی ماندہ ہندوستان کا لوگوں پراحسان ہے کہ انہوں نے پاکستان کو قبول کرنے کے ساتھ مہاجرین کو کھلے دل سے قبول کیا یا متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صدیوں کے مسلمانوں کا ان پر احسان ہے کہ انہوں نے انہیں ایک ملک بناکر دیا۔ اپنی تاریخ ‘ تہذیب اور زبان کو مقامیت سے زیادہ مقدس بنا کر پیش کیا؟۔یہ سوال اس وقت تک رہے گا جب تک کھلے دل سے مکالمہ نہ ہو۔ ہمارے ایک دوست احمد شفیق تو کہتے ہیں بنگالیوں نے احسان کی چادر اتار کر راستہ الگ کر لیا آج دیکھیں وہ معاشی طور پر کہاں کھڑے ہیں اور ہم احسان کے مارے ہوئے کہاں دھکے کھا رہے ہیں۔ قومی جمہوریت والی ریاست ظاہر ہے رعایا کے عوام بننے بغیر تشکیل نہیں پاسکتی۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ خبط عظمت کی پھکیاں بھی فروخت نہ کی جائیں ۔ مثلاً میں عرض کر دوں مجھے اردو زبان سے کوئی عداوت نہیں ملک میں آباد مختلف قومیتوں کے لوگ اسے سمجھتے بولتے لکھتے ہیں ذرائع ابلاغ کی زبان بھی یہی ہے اور ہمارے درمیان رابطے کی زبان بھی۔ مقامی زبانوں کو ذرائع ابلاغ کی زبان بننے سے کس نے روکا یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔ البتہ میں ایک طالب علم کے طور پر اردو بولنے والے اس سے مراد وہ دوست ہیں جو خود کو مہاجر اور اردو کا وارث کہتے ہیں سے متفق نہیں ہوں کہ انہوں نے ہمیں تہذیب و تمدن سے روشناس کروایا۔ وجہ صاف ہے آپ موجودہ پاکستان کی 1947ء سے قبل کی تاریخ کے اوراق الٹئے ۔ اس سرزمین نے کتنی تہذیبوں کا عروج دیکھا۔ملتان موہنجوداڑو ‘ ہڑپہ ‘گندھارا معروف تہذیبوں کے نام ہیں ان سے قدیم یاکڑی تہذیب ہے اس پر چونکہ تحقیق نہیں ہوئی اس لئے خود تاریخ کے طلباء بھی اس بارے بہت کم جانتے ہیں ۔ جب یہ تہذیب اپنے عروج پرتھیں تو اردو کا دور دو تک کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ موجودہ جغرافیائی حد بندی میں سب سے قدیم ملتان ہے معلوم تاریخ کے حساب سے لگ بھگ سات ہزار برس قبل توحید پرست راجہ پر ہلاداس کے حکمران تھے ۔ ظاہر ہے کہ ملتان اس سے قبل بھی ہوگا۔ بھگوت گیتا اور رامائن کی دیو مالائی کہانیوں پر یقین کریں توپھر ہزاروں سال لاکھوں سال میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا اس بات پر کہ ہندو اکثریت مسلم اقلیت کے حقوق غضب کریگی؟ اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں مکالمہ مختلف چیزہے مگر ہم اس کی طرف سے محروم ہیں یہ محرومی سازش کے تحت پیدا کی گئی تاکہ ہم اپنے اصل سے کٹ کر سرابوں کے پیچھے بھاگتے رہیں۔ ہم مقامیوں کو دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ساری خرابیوں کا ذمہ دارہم اور اچھائیوں کے وہ قرار پاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ہم نے بنایا ۔ ویسے ایک حساب سے ہم مقامی اور یہ دوست برابر ہیں وہ اس طرح کہ اس ملک میں چار بار فوجی حکومتیں آئیں ۔ دوبار مقامیوں کی اور دوبار مہاجر جرنیلوں کی۔ اس جملے پر ناراض ہونے کی بجائے اس کا لطف لیجئے۔ ہجرت دوطرح کی ہوتی ہے ایک یہ کہ لوگ جہاں رہ رہے ہوتے ہیں وہاں موجود جبر و استبداد سے تنگ آکر نقل مکانی کرتے ہیں دوسری ہجرت اس لئے ہوتی ہے کہ چونکہ یہاں ہمارے معاشی وسیاسی مفادات محفوظ نہیں ہم نقل مکانی کرتے ہیں۔1947ء کے بٹوارے کے بعد ہونے والی ہجرت ‘ ہجرت کے دوسرے اصول پر پورا اترتی ہے ۔ متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ آزادی متحدہ ہندوستان کو ملی تو غالب ہندو اکثریت ان کے حقوق پامال کریگی۔ بٹوارے کی بنیاد اسی سوچ نے رکھی اس لئے طالب علم کی حیثیت سے ہمیشہ عرض کیا کہ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ14 اگست 1947ء کوآزادی ملی یا ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کے سیاستدانوں نے بٹوارے پراتفاق کیا اس وقت تک ہم حقیقت حال کو سمجھ نہیں سکتے ۔ ہم مقامیوں کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اردو نے ہمیں سید سبط حسن ‘ شوکت صدیقی ‘ ابن انشاء ‘ جمال احسانی ‘ معراج محمد خان دیئے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہم نے بھی اردو کو فیض ‘فراز ‘ علی عباس جلالپوری ‘ محسن نقوی اور قسور گردیزی دیئے ۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جھگڑا اس کا نہیں کہ انہوں نے کیا دیا اور ہم نے کیا دیا لیا۔ طے یہ ہونا ہے کہ چالیس پچاس لاکھ مہاجرین کے لئے مقامی اکثریت اپنی تاریخ و تہذیب اور ثقافت کوچھوڑ دے یا آنے والے مقامیت میں رچ بس جائیں۔تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہی سمجھ پایا ہوں کہ علم مہاجریت کی تاریخ بہت زیادہ روشن نہیں ہے کیونکہ اس میں مقامیت سے انکار نغمہ اول ہے ۔ سیاسی طور پر دیکھیں تو ابھی کل کی بات ہے جناب پرویز مشرف اس ملک کے حکمران تھے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ پدرم سلطان بود کے نغمے الاپنے کی بجائے زمینی حقیقتوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے ۔ بٹوارے کو74برس ہو گئے یہاں قبرستان ‘ محلے اور بازار سانجھے ہیں۔ سیاسی و معاشی مفادات بھی ہمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے یا کپڑے اتارنے کی بجائے مل کر قومی جمہوریت کے قیام کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی یہ اسی صورت ممکن ہے جب رجعت پسندی کے بیچ سے بوئی تعصبات کی فصلوں کو رزق بنانے کی بجائے اپنے عصری شعور سے کام لیں ۔ ایسی بحثیں نہ اٹھائیں جو تلخیوں کو جنم دیں ۔ اس ملک کے لوگوں کو انصاف اور مساوات پرمبنی ایسے نظام کی ضرورت ہے جورجعت پسندی ‘ استحصال ‘ لشکر پسندی سے برات کرے اور عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم ‘ ورنہ لڑتے رہیں اس لڑائی جھگڑے اور نفرتوں کا فائدہ ان استحصالی طبقات کو ہو گا جو74برسوں سے ہم پر مسلط ہیں۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے