تہذیب وتاریخ کا محاصرہ

تہذیب وتاریخ کا محاصرہ

وادی کشمیر اگر ریاست جموں وکشمیر کا دل ہے تو اس وادی کا دل سری نگر ہے اور سری نگر کا دل ڈائون ٹائون میں روایتی طرز تعمیر کا شاہکار جامع مسجدہے ۔یہ چھ سوسال سے کشمیر میں ایک تہذیب کے عروج زوال کی گواہ بھی ہے اور حملہ آوروں کے جوروستم کی شاہد بھی اور کشمیریوں کے عجز وانکسار کی امین بھی ۔یہ صرف کشمیریوں کی روحانی اور مذہبی تسکین کا مقام نہیں بلکہ ان کی سیاسی تربیت اور راہ عمل کا مرکز بھی ۔مغربی دنیا کو اس کی اہمیت سمجھانے کے لئے شاید یہی کافی ہوگا کہ اسے ویٹیکن سٹی کے ساتھ تشبیہ دی جائے ۔جامع مسجد ایک ہمہ وقت متصادم اور غلبے کے لئے تڑپنے والی مگر مغلوب تہذیب کا مرکز ہے ۔یہاں سے جاری ہونے والا خطبہ کشمیریوں کی سیاسی اور سماجی زندگی کے مسائل اور مشکلات کا احاطہ کئے ہوتا ہے اور شاید ہر دور کے ظالم کے لئے یہی خطرے کی گھنٹی رہی ہے۔کشمیر کی حالیہ سیاسی اور مزاحمتی تحریک میں اس مرکز کا نمایاں کردار رہا ہے ۔اب میرواعظ عمر فاروق جامع مسجد کی نگرانی کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاسی مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔وہ اپنے ہر خطبے میں کشمیر کے مسئلے کے سیاسی پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں اور لوگ پرشور نعروں سے مزاحمت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ میرواعظ عمرفاروق کو خطبے میں سیاسی امور پر لب کشائی سے گریز پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی جا چکی ہیں ۔کشمیریوں کا اجتماعی ضمیر جامع مسجد کے کردار کو محدود کرنے کی اس کوشش کو تسلیم نہیں کرتااور یہی وجہ ہے جامع مسجد خاردار تاروں اور فوجی محاصرے کا شکار ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی )ن ےMosque closure in Kashmir contradicts India ,s religious freedom claim .کے عنوان سے لکھی رپورٹ میں جامع مسجد کی تالہ بندی اور محاصرے کی اس دکھ بھری داستان کو بہت صراحت سے بیان کیا ہے ۔اے پی نے جامع مسجد کی موجودہ دل خراش کہانی کا آغاز یوں کیا ہے”بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی عظیم الشان جامع مسجد اپنے وسیع مرکزی دروازے اورمیناروں کے باعث علاقے میںنمایاں طور پر کشش منظر پیش کرتی ہے۔اس تاریخی مسجد میں تنتیس ہزار نمازی عبادت کر سکتے ہیںاور عیدین جیسے خاص تہواروں پر یہاں لاکھوں مسلمان جمع ہوتے ہیں۔بھارتی حکام اس مسجد کو مسائل پیدا کرنے والی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔جہاں احتجاج اور جھڑپوں کا سلسلہ متنازعہ کشمیر پر بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کرتا ہے۔دوسری طرف مسلمانوں کے لئے یہ نماز جمعہ کی ادائیگی کا ایک مقدس مقام ہے۔جہاں وہ اپنے سیاسی حقوق کے لئے آواز اُٹھا سکتے ہیں”۔اے پی کے رپورٹر آگے چل کر یوں رقم طراز ہیں ”بھارتی فورسز او ر کشمیریوں کے درمیان تلخ تنازعے کے دوران یہ مسجد دوسال سے تالہ بند رہی ہے۔مسجد کے امام کو اس وقت سے ہی نظر بند رکھا گیا ہے اور جمعہ کے دن مسجد کے صدر دروازے کو تالے لگا کر ٹین کی چادروں سے بند کیا جاتا ہے۔مسجد کی بندش نے کشمیریوں کے غم وغصے کو مزید ہوادی ہے”۔اس کے بعد اے پی کے رپورٹر نے مسجد کی بندش کے حوالے سے مقامی نمازیوں کے تاثر ات بیان کئے ہیں ۔کشمیر کے معروف شاعر اور دانشور ظریف احمد ظریف کا تبصرہ کچھ یوں ہے”جامع مسجد کشمیریوں کے عقیدے کی روح کی نمائندگی کرتی ہے تقریباََ چھ صدیاں قبل اس کی بنیاد کے بعدسے یہ سماجی اور سیای حقوق کے مطالبات کا مرکز رہی ہے اس کی بندش ہمارے ایمان پر کاری ضرب ہے”اے پی کے نامعلوم رپورٹر کے مطابق ایک طرف امرناتھ یاترا دو ماہ تک جاری رہتی ہے اور لاکھوں ہندو بھارت بھر سے یہاں پوجا کرنے آتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی اور تہذیبی مرکز دوسال سے بند ہے اور کشمیری اسے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔رپورٹ کا اختتام ان الفاظ پر کیا گیا ہے کہ ”ویران جامع مسجد کے قریب بھارتی سیاح خارداروں تاروں سے گھرے اس کے مقفل دروازے کے پس منظر میں سیلفیاں لینے میں مصروف ہیں اور کشمیری انہیں خاموشی سے دیکھ رہے ہیں”۔امریکی خبر رساں ادارے کی یہ رپورٹ ماضی قریب میں عالمی ذرائع ابلاغ میں کشمیرکی حقیقی صورت حال کی عکاسی کرنے والی چند ایک رپورٹس میں نمایاں اور بھرپور ہے ۔جس میں کشمیر میں بھارت کے اقدامات کو ہندوتوا مائنڈ سیٹ کے تناظر میں دیکھا گیا ہے یعنی ایک طرف ہندو ئوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھرپور مدد دی جا رہی ہے تو دوسری طرف مسلمان آبادی کے مذہبی شعائر کو یوں ویران ،بے رونق اور اُداس رکھ کر ان کی بیگانگی اور ناراضگی کو بڑھایا جارہا ہے ۔یہ ان امریکی حکومت اور اداروں کے لئے بھی کسی تازیانہ سے کم نہیں جو چین کے اویغور مسلمانوں کے غم میں گھل رہے ہیں اور جنہیں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناانصافیاں نظر نہیں آتی ۔

مزید پڑھیں:  ہم غلام ہیں!!