قومی حکومت کیسی ہو گی؟

شہباز شریف نے ایک انٹرویو کے دوران ان سوالوں کے جواب دے دیئے ہیں جو اپوزیشن جماعتوں سے متعلق کئے جا رہے تھے کہ جب ہر جماعت کے مفادات الگ ہیں تو اپوزیشن کا اتحاد کیسے برقرار رہے گا، تحریک انصاف نے یہ سوال کئی بار اٹھایا، اس کے ساتھ ساتھ عام آدمی بھی ایسا ہی سوچتا تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو ان کا آپس میں اتحاد برقرار رہنا مشکل ہے، لیکن شہباز شریف نے اس کنفیوژن کو دور کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کرنے کے بعد قومی حکومت قائم کی جائے گی جس میں تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہوں گی۔
مائنس تحریک انصاف کیلئے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ضروری ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نمبر گیم میں کامیاب ہو گئی ہیں جس کے شواہد منحرف اراکین کی صورت آنا شروع ہو گئے ہیں، یہ صورتحال حکمران جماعت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کس جماعت کو اقتدار میں کتنا حصہ ملے گا اور وزیر اعظم کون ہو گا، اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قومی حکومت کے خد و خال کیا ہوں گے؟
شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں جو اشارے دیئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومی حکومت کا اولین مقصد ضروری قانون سازی ہو گا جو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں نہیں ہو سکی ہے، نیب کا خاتمہ سرفہرست ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان یہ طے پا چکا ہے کہ نیب کو تحریک انصاف کے خلاف استعمال کرنے کے خیال سے باقی نہیں رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ پہلے ادوار میں غلطی کی گئی تھی اس بار پرانی غلطی کو نہیں دہرایا جائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں اٹھارویں ترمیم جیسا اہم مرحلہ سر ہوا مگر نیب کو ختم نہیں کیا گیا، اسی طرح مسلم لیگ ن کے دور میں بھی آپشن تھا کہ قانون سازی کر کے اسے ختم کر دیا جائے مگر الٹا پیپلزپارٹی کے خلاف اسے استعمال کیا گیا اور سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کر لیا گیا، پیپلزپارٹی نے اپنے سابق وزیر کی گرفتاری پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ میاں نواز شریف ڈاکٹر کی گرفتاری نہیں چاہتے تھے لیکن سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی ڈٹ گئے تھے، میاں نواز شریف اپنے ہی وزیر داخلہ کے سامنے جب بے بس ہوئے تو انہوں نے چپ سادھ لی تھی۔
تاریخ کا ستم دیکھئے کہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے احتساب کا نعرہ لگاتے ہوئے نیب کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا، مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت پابند سلاسل ہو گئی، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی اور احسن اقبال سمیت دیگر متعدد رہنما گرفتا ہوئے، کئی ماہ تک پابند سلاسل رہے اور عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوئے، اسی طرح پیپلزپارٹی کی قیادت میں آصف علی زردای، سید خورشید شاہ سمیت کئی رہنما گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کے بعد جب خواجہ سعد رفیق پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے آئے تو انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اب بھی وقت ہے نیب کے قانون کو بدل دیا جائے یا اسے ختم کر دیا جائے مگر ان کی بات کی طرف کسی نے توجہ نہ دی، ایسے ہی ایک پیشی کے موقع پر جب میاں نواز شریف سے نیب سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نیب کو بھگت چکے ہیں باقی بھی بھگتیں۔ انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ وہ مشکل دن ختم ہوتے ہی نیب کو تحریک انصاف کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس پس منظر کے بعد اب صورتحال مختلف ہے، مریم نواز کی جارحانہ سیاست کے برعکس شہباز شریف اور آصف علی زردای اس بات پر متفق ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی حکومت بننے کے فوری بعد نیب کو ختم کر دیا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی حکومت اختیارات کا فائدہ اٹھا کر نیب کو اپوزیشن کے خلاف استعمال نہ کر سکے۔قومی حکومت کا اہم مقصد باہمی تعاون سے ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہو گا، کیونکہ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ جون جولائی میں نیا معاشی بحران آنے والا ہے جب عالمی میالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) قرضوں کی واپسی کیلئے بجٹ پر اثر ہونے کی کوشش کرے گا تو مہنگائی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا، پاکستانی عوام جس کے متحمل نہیں ہو سکیں گے، اس کے پیش نظر مقتدر حلقوں کا خیال ہے کہ بحران آنے سے پہلے نیا سیٹ اپ تیار کر لیا جائے تاکہ متوقع بحران سے بچا جا سکے۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ تحریک انصاف حکومت پر عالمی دنیا اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جب قومی حکومت تشکیل پا جائے گی تو برادر اسلامی ممالک اور دوست ممالک سے آٹھ دس ارب ڈالر آسان شرائط پر جمع کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا یہ گزشتہ ادوار میں پہلے کئی مرتبہ ہو چکا ہے کہ جب پاکستان پر مشکل وقت آیا تو دوست ممالک نے ہمیں مشکل سے باہر نکلنے کیلئے بھرپور سپورٹ کیا۔ قومی حکومت کا دورانیہ کتنا ہونا چاہئے اس بارے میں اختلاف برقرار ہے بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے میں جو مدت باقی ہے قومی حکومت اسی دورانئے کیلئے تشکیل دی جائے جبکہ شہباز شریف جیسے رہنماؤں کا خیال ہے کہ پانچ سال کیلئے قومی حکومت قائم کی جائے تاکہ منصوبوں کی تکمیل ہو سکے، شہباز شریف ڈیڑھ سالہ حکومت کو مسائل کا حل قرار نہیں دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی