مشرقیات

دیسی اور ولائتی کا تفرق تو بہت پہلے ہی شروع ہوچکا ہے ۔ اب ہم امپورٹڈ کے پیچھے بھاگنے لگے ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر نے جدید رجحانات کو اتنا بڑھاوا دے دیا ہے کہ خود ہم ہماری رہتل پر احساس کمتر ی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ سو میڈیا نے ہمارے لیے کچھ ایسے معیار سیٹ کر دیے ہیں کہ ہم انھیں ہی اصل سمجھنے لگے ہیں ۔ اور اس نئے لائف سٹائل کو حاصل کرنا ہی اصل زندگی سمجھنے لگے ہیں ۔شہری زندگی بھی تو ویسی نہیں رہی لیکن ہمارے دیہات بھی ویسے نہیں رہے جیسے ہوا کرتے تھے ۔ایک زمانے میں کم از کم دیہات میں گھر میں مال مویشی موجود ہوتے تھے ۔ ڈیری اور پولٹری پراڈکٹس میں دیہات خود کفیل تھے ۔لیکن اب دیہات میں بھی لوگ مال مویشی پالنا عام نہیں رہا ۔ حالانکہ وہی کھیت کھلیان اب بھی قائم و دائم ہیں ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دیہات میں ایکٹروں اراضی موجو دہو اور لوگ ٹیٹرا پیک کا دودھ پئیں اور ایکسپائری ڈیٹ لکھے ہوئے فارمی انڈے کھائیں ۔یہی کمال کارپوریٹ کلچر کا ہے ۔خالص دودھ کو مضر صحر قراردے دیا گیا اور پولٹری کو لائف سٹائل سے نکال دیا گیا ۔ 1961میںپاکستان کی ڈیری پراڈکٹ کی امپورٹ 2ملین ڈالرتھی جبکہ بتدریج بڑھتے بڑھتے اب یہ امپورٹ 2019میں 140ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے اور ان ڈیر ی پراڈکٹس میں سب سے زیادہ پاکستانی امپورٹڈ پنیر کھاجاتے ہیں۔جو عموما مغربی طرز کے کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ کارپوریٹ دنیا کا سب سے بڑا وار جو عام آدمی پر ہوا ہے وہ برانڈازم ہے ۔ ہمیں برانڈز کا دلدادہ بنا دیا گیا ۔ ہماری پوشاک ، خوراک اور دیگر ضرورتیں جو عام کاریگر اور ہنر ور پوری کرتے تھے ، جس میں ہمارا اپنی حس جمال بھی کارفرماہوتی تھی اب وہ کام برانڈز نے کرنا شروع کردیا ہے ۔ ہماری جیب سے نکلنے والا پیسہ نیشنل و ملٹی نیشنل برانڈزکی جیبوں میں چلا جاتا ہے ۔ گلی محلے کا کاریگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھ گیا ہے ۔ اور اب اس آن لائن شاپنگ نے تباہی مچا دی ہے ۔ گھر بیٹھے اچھی بری چیزیں خریدلو۔ اس میں بھی فائدہ ملٹی نیشنل کا ہو اکہ آن لائن مار کیٹ میں بھی لوکل کی بجائے ملٹی نیشنل ہی زیادہ منافع کماسکتی ہیں ۔کورونا کے بعد پوری دنیا پر کارپوریٹ نیٹ ورک مذید مضبوط ہوا ہے ۔ اگر یہ کورونا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے انقلاب سے قبل آیا ہوتا تو صورت حال شاید مختلف ہوتی لیکن انٹرنیٹ مارکیٹنگ نے عام مارکیٹنگ کی صورت اور ڈائنامکس کو یکسر بدل دیا ہے ۔اقتصادیات کا تعلق بھی براہ راست سماجیات سے ہوتا ہے ۔ اب جبکہ سوشل میڈیا نے ہماری سماجیات کو ایک نیااور منفرد اندا ز دے دیا ہے سو اس نئی سماجیات کے اثرات ہماری اقتصادیات پر کیسے نہ پڑیں ۔ کارپوریٹ دنیااس بات کو ہم سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہے سو اس کا فائدہ کارپوریٹ دنیا نے خوب اٹھا یا ہے ۔ یہ عمل ابھی جاری ہے اور وقت ہی بتائے گا کہ زندگی اور کس کس رنگ میں اور کس کس ڈھنگ میں تبدیل ہوتی ہے ۔کیونکہ ہم جیسے پسماندہ لوگوں نے اس تبدیلی کو قبول کرلیا ہے تو باقی تو پہلے ہی سے آمادہ ہیں تبدیلی پر۔

مزید پڑھیں:  نذرانہ دیئے بغیرنیٹ میٹرنگ؟