سیاسی دائو پیچ آزمانے کا حتمی مرحلہ

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے قوت اخوت عوام چارٹر جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر ایسا پاکستان تشکیل دیں گے جہاں آئین کی حرمت مقدم ہوتمام ادارے ایک منتخب انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے تابع ہوں گے ۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ملاکنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے حزب اختلاف کے موقف اور سیاسی عزائم کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس غیرجمہوری شخص کا مقابلہ جمہوریت سے کریں گے۔یہ عدم اعتماد ہماری جمہوریت کا امتحان ہے، غیرجانبداری کے لئے امتحان ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا آئینی عمل جمہوری طریقے سے مکمل ہو۔ ہم جس طرح عام انتخابات میں دھاندلی برداشت نہیں کر سکتے بالکل اسی طرح عدم اعتماد میں کوئی دھاندلی برداشت نہیں کریں گے۔یوم پاکستان اور ا سلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کانفرنس کے اختتام کے بعد ہماری قومی سیاست واپس اپنی ڈگر پہ آگئی ہے اور ملکی سیاست کا تلاطم خیز اور فیصلہ کن روائونڈ کا آغاز ہوچکا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان استعفے کی بجائے عدم اعتماد کے ووٹ سے ایک روز قبل یا پھر اسی دن صبح حزب اختلاف کو حیرت زدہ اور انگشت بدندان کرنے کا عندیہ دے رہے ہیںجبکہ دوسری جانب حزب اختلاف مطمئن اور پر اعتماد ہے کہ ان کے نمبرز پورے نہیں بلکہ زیادہ ہی ہیں اور مزیدسینہ چاکان چمن کے آملنے کا دعویٰ کر رہے ہیں حزب اختلاف کی دانست میں حکومت رخصت ہو چکی ہے اور وزیر اعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہئے جبکہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کا ہر قیمت پر سامنا کرنے کے لئے پرعزم ہے منحرف اراکین میں سے بعض کی واپسی کی اطلاعات بھی ہیں اور اس حوالے سے حکومت پوری طرح کوشاں ہے ساتھ ہی ساتھ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملائے رکھنے کے حوالے سے بھی آخری وقت تک حکومت کی کوشش رہے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے جس کی واپسی کی کوئی امید اور گنجائش نہیں۔وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے جو عوامی توقعات تھیں اور جس چیز کے وہ دعویدار تھے اس میں ان کی ناکامی کوئی پوشیدہ امر نہیں سیاسی مسائل اقتدار کی جنگ سیاستدانوں کا مسئلہ ٹھہرا احتساب بھی حکومت اور عوام کی ملی جلی امید تھی لیکن اس میں بھی حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی بلکہ اب تو پہیہ ہی الٹا چلنے لگا ہے ان تمام امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگرعوامی توقعات کو اسی ایک لفظ میں سمو دیا جائے تو وہ یقینا مہنگائی ہو گی عوام کو بجا طور پر حکومت سے ریلیف کی توقع تھی جو نہ مل سکی کم از کم اگر مہنگائی کی معمول کی رفتار بھی ہوتی تو بھی عوام کے لئے قابل قبول ہوتا لیکن جس رفتار سے گزشتہ سالوں میں مہنگائی میں اضافہ ہوا یوٹیلٹی بلوں اور اشیائے خورد و نوش سمیت مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیایہ عمل حکومت اور عوام کے درمیان دوری کا بنیادی سبب بنا اور اسی صورتحال کا حزب اختلاف نے بھی فائدہ اٹھایا۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آخری ایک دو ماہ کے دوران مختلف صورتوں میں عوام کو ریلیف دینے کی جو سعی کی گئی اس سے بھی عوام مطمئن نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی مفاد اور حکمرانی کے حوالے سے جو بے توجہی دکھائی گئی اسی سے حکومت کی مقبولیت متاثر ہوئی اور حزب ا ختلاف کی جماعتوں کا کام آسان ہوا وطن عزیز کی سیاست واقتدار میںبااثر حلقوںکی مداخلت و سرپرستی کوئی پوشید ہ امر نہیںجو پورے ضبط کے باوجود بالاخر غیر جانبدار ہونے پر مجبور ہوگئے اس کی بھی ایک بڑی وجہ طرز حکومت اور مہنگائی ہی نظرآتی ہے یہ ساری صورتحال تحریک عدم اعتماد پر منتج ہوئی جس کی کامیابی کے لئے پریقین اور پرعزم حزب اختلاف کی جانب سے اب اس امر کا عندیہ دیا جارہا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور پاکستان کو ایسا ملک بنایا جائے گاجہاں ادارے حکومت اور پارلیمان کے تابع ہوں حزب ا ختلاف کی چیدہ چیدہ جماعتوں اور چھوٹی بڑی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اتفاق کر لیں اور کسی مصلحت اور بہکائوے کا شکار نہ ہوں تو اس وقت لوہا گرم ہے اور اگر کام کرنے والے کام کر گئے اور یہ موقع گنوا دیا گیا تو پھر شایداس منزل کے حصول کے لئے ملک و قوم کو مزید انتظار کرنا پڑے گا جس کی طوالت کا اندازہ نہیں۔ حزب اختلاف کی جانب سے یقینا درپردہ بعض معاملات پراصولی موقف اپنانے کے بعد ہی اس طرح کے عزم کا اعلان کیا گیا ہے جس پر اب کاربند رہنا حزب اختلاف کا امتحان ہو گا۔ ہمارے تئیںتحریک عدم اعتماد کی کامیابی و ناکامی کوئی بڑی بات نہیں بڑی بات یہ ہو گی کہ ملک میں حکومت ‘ پارلیمان اور جمہوریت مضبوط ہو جس کے لئے سیاسی جماعتیں جدوجہد کرتی آئی ہیں توقع کی جانی چاہئے کہ وہ افطار سے تھوڑی دیر قبل روزہ توڑنے کی غلطی نہیں کریں گے دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان حزب اختلاف کو جو سپرائز دینے کا اعلان کر رہے ہیں وہ سرپرائز اگرسیاسی رد عمل ہے اور اس سپرائز میں کوئی غیر جمہوری اقدام نہیں تو یہ ان کا حق ہے ۔لیکن اگر ایسا نہیں اور وزیر اعظم کسی انتظامی حکم کے ذریعے سپرائز دینا چاہتے ہیں تو یہ کوئی سپرائز نہ ہوگا بلکہ اس کے اثرات اور مضمرات سے ملکی سیاسی نظام کی چولیں ہل سکتی ہیں اور خود وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے لئے بھی چلنا مشکل ہو جائے گا۔حکومت اور حزب اختلاف دونوں جو دائو پیچ آزمائیں وہ جمہوری اصولوں کے مطابق ہوں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام اس سے قطع نظر کوئی غیر جمہوری قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے انتشار پھیلے۔

مزید پڑھیں:  آئی ایم ایف کی فرمائشی بجٹ