ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

بدقسمتی سے برصغیر کی سیاست میں خوشامد پرستی اپنی انتہاء تک پہنچی ہوئی ہے ‘ اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین پارٹی کے مقاصد اور پروگرام سے زیادہ پارٹی کے سربراہوں کے بارے میں رطب اللسان رہتے ہیں ‘ اس کی تازہ مثال بھارتیہ جنتا پارٹی کے مہاراشٹر کے سربراہ چندرکانت پائل کی کاسہ لیسی اور خوشامد پرستی پر مبنی وہ بیان ہے جس میں موصوف نے اپنے پردھان منتری نریندر مودی کی تعریف کچھ اس انداز سے کی ہے کہ جیسے مودی جی جیسا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ‘ حالانکہ انسانی خصوصیات کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور ان خصوصیات سے آگے جانے والوں کو اس کے بعد کسی”دیوتا” کے درجے پر ہی بعض عقیدت کے اندھے بٹھا دیتے ہیں ‘ بلکہ اس حوالے سے پرچار کرکے دوسرے ضعیف العقیدہ لوگوں سے دیوتا تسلیم بھی کرا دیتے ہیں چند کارکانت پاٹل نے بی جے پی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مودی جی صرف دو گھنٹے سوتے ہیں تاکہ وہ اپنے ملک کے لئے کام کریں ‘ بات اگر یہیں تک رہتی یعنی 24 گھنٹے میں 22 گھنٹے تک جاگتے رہنا اور بقول مرزا محمود سرحدی
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
تو پھربھی بادل ناخواستہ اسے قبول کیا جا سکتا تھا مگر شری چندرکانت پائل اس بڑبولے کی طرح جو لمبی لمبی چھوڑنے کا عادی تھا اور اس کے دوست اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے ‘ ایک دوست کے مشورے پر کہ جہاں میں گفتگو میں بہت ہی لمبی چھوڑ دوں تو تم گلہ کھنکارتے ہوئے میری توجہ دلا دیا کرو ‘ ایک روز اسی قسم کی لمبی لمبی چھوڑتے ہوئے بڑبولے نے کہا کہ میں نے فلاں جگہ پراتنی لمبی چھلانگ ماری تھی ‘ دوست نے گلہ صاف کرتے ہوئے لمبی ہانکنے کی جانب توجہ دلائی تو اس نے فوراً تبدیل کرتے ہوئے چھلانگ کی طوالت کوکچھ کم کیا ‘ دوست نے پھرگلہ کھنکارتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی تو بڑبولے نے مزید فاصلہ کم کیا ‘ یوں ہوتے ہوئے جب چھلانگ مارنے کی لمبائی بیس گز تک آگئی اور دوست نے پھربھی اسے منع کیا تو لمبی لمبی چھوڑنے والے نے غصے میں دوست کو دیکھا اور کہا ‘ اب اس سے زیادہ کم نہیں کر سکتا ‘ چاہے تم کتنا ہی گلہ صاف کرتے ہوئے مجھے روکنے کی کوشش کرو ۔ مولانا رومی نے کہا تھا آپ چالیس عالموں کو ایک دلیل سے قائل کر سکتے ہیں لیکن ایک جاہل کو چالیس دلیلوں سے نہیں ہرا سکتے کچھ ایسی ہی صورتحال شری پائل کے ساتھ بھی ہے جنہوں نے نریندر مودی کی قوم کے لئے خدمات کے دورانیے کو 22گھنٹے پر محیط کرتے ہوئے اسے انتہائوں تک پہنچانے کی مزید کوشش میں چاپلوسی اور کاسہ لیسی کی حدیں تمام کر دیں اور کہا کہ مودی ایک ایک منٹ ملک کے لئے کام کر رہے ہیں اور فی الحال وہ سونے کو روکنے کے لئے تجربہ کر رہے ہیں تاکہ وہ چوبیس گھنٹے جاگ سکیں اور اپنی زندگی اپنے ملک کے لئے وقف کر سکیں۔ شری پائل جی نے ان خیالات کا اظہار بھارت کے شہر کولہاپور کے ایک حلقے کے ضمنی الیکشن کے لئے منعقدہ اجتماع سے خطاب کے دوران کیا ‘ معلوم نہیں اس اجتماع میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جو شری پائل کا کولہاپوری چپل ہی سے ”استقبال” کرتا اور اس سے پوچھنے کی جسارت کرتا کہ اتنی لمبی لمبی تو نہ چھوڑو ‘ اور موصوف پر واضح کرتا کہ
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
دنیا میں یقیناایسے رہنما گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی خاطر آرام کا دورانیہ کم رکھا مگر جن لوگوں کے بارے میں ا یسے دعوئے کئے جاتے ہیں ان کے کام کرنے کا دورانیہ 18یا پھر 19گھنٹے بتایا جاتا ہے ‘ ا ور ایسے لوگ دنیا کے مختلف ملکوں میں پائے جاتے رہے ہیں ‘ تاہم بائیس گھنٹے ایک آدھ بار توکام کے لئے مختص کئے جا سکتے ہیں ‘ مسلسل اور مستقل طور پر یہ ناممکن اور انسانی بس سے باہر کی بات ہے چہ جائیکہ 24گھنٹے تک اسے پہنچا کر بندہ مافوق الفطرت اور ماورائی قوت کا مالک بن جائے ۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے ۔
اس پر ہمیں وہ 25واں گھنٹہ یاد آگیا ہے جس کا ادراک ہمیں ایک مغربی ملک میں ریڈیو ڈرامے کی ٹریننگ کے دوران یوں ہوا تھا کہ وہاں لوگ کیسے کام کرتے ہوئے چوبیس میں سے 25 ویں گھنٹے کوکشید کرکے اس کو بروئے کار لاتے ہیں ‘ وگرنہ تو 24گھنٹوں میں ایک منٹ کا بھی اضافہ نا ممکن ہے اور نہ ہی انسانی تقاضوں کے عین مطابق ‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے بھی دن اور رات کے ذریعے کام اور آرام کو تقسیم کیا ہے ‘ ہوا یوں کہ بہت مدت پہلے ملازمت میں اگلے درجے پر ترقی کے لئے ا نٹرویو کے دوران جب یہ سوال کیاگیا کہ آج کل میں کونسی کتابیں پڑھ رہا ہوں اور اپنی ان دنوں کی ذمہ داری کے حوالے سے میں نے یہ کہا کہ مطالعے کا وقت کہیں نہیں ملتا تو ریڈیو پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر نے جو انٹرویو لے رہے تھے ‘ مجھے کہا ‘ یہ تمہارا مسئلہ ہے اور تمہیں ملازمت کے تقاضوں کے پیش نظر مطالعے کے لئے 25گھنٹہ تلاش کرنا ہے ۔

مزید پڑھیں:  گدھوں کے''مقدار''میں اضافہ