عمران خان کا سرپرائز کیا ہو گا؟

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آخری مرحلے میں ہے، اس حوالے سے جمعہ کو طلب کئے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کی توقع تھی مگر اس اہم اجلاس کو ملتوی کر دیا گیا، اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر قومی اسمبلی کا کوئی رکن انتقال کر جائے تو اجلاس کا ایجنڈا آئندہ روز تک ملتوی کر دیا جاتا ہے انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں 24 مرتبہ ایسا ہو چکا ہے، اب قومی اسمبلی کا اجلاس پیر 28مارچ کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے باعث حکومت کو وقتی ریلیف مل گیا ہے، تحریک انصاف اس دوران تمام تر توجہ 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والے جلسہ پر دے سکے گی، تحریک انصاف کے رہنما دس لاکھ افراد کو جمع کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان 27 مارچ کے جلسے میں اپوزیشن کو سرپرائز دیں گے، اس سرپرائز کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ عمران خان کا سرپرائز کیا ہو گا؟ اس ضمن میں آپشنز کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے پاس بہت محدود آپشنز ہیں، حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے قومی اسمبلی میں عددی برتری ثابت کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، کیونکہ اتحادیوں کی مدد سے حکومت قائم ہے، اگر اس اہم موقع پر اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو تحریک انصاف ایوان میں اکثریت کھو دے گی، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو منحرف اراکین کے خلاف صدارتی ریفرنس کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ منحرف اراکین کے خلاف آتا ہے تب بھی تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، البتہ سپریم کورٹ کا بینچ اپنے ریمارکس میں اشارہ دے چکا ہے کہ ووٹ کی راہ میں وہ رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ مطلب یہ کہ منحرف اراکین بھی اپنا ووٹ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف استعمال کر سکیں گے اور اس اقدام کے بعد ہی تحریک انصاف منحرف اراکین کے خلاف حتمی کارروائی کر سکے گی۔
بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا سرپرائز کیا ہو گا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان معاملے کو آخری مرحلے تک لے جانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ بخوبی جان چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد میں ان کے بچنے کے امکانات بہت محدود ہیں، سو وہ اپنے اعصاب پر قابو پر کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ان کے ہاتھ میں اپوزیشن کی بہت بڑی کمزوری آ گئی ہے جسے وہ 27 مارچ کے جلسے میں لاکھوں لوگوں کے سامنے پیش کریں گے جس کو سننے کے بعد اپوزیشن اپنی تحریک واپس لینے پر مجبور ہو جا ئے گی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان وزرات عظمیٰ کے خاتمے کے بعد اپنی سیاسی ساکھ بچانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ایوان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے پہلے عوامی اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں، 27مارچ کے جلسہ میں عوام کے سامنے کچھ حقائق پیش کریں گے کہ بیرونی مداخلت کی بنیاد پر انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں ان کا خیال ہے کہ ستائیس مارچ کے اہم ترین جلسے میں جب دنیا بھر کا میڈیا کوریج دے رہا ہو گا، ان کی بات اہمیت اختیار کر جائے گی اور وہ عوامی عدالت میں سرخرو ہو جائیں گے تاہم تحریک انصاف کیلئے پریڈ گراؤنڈ کو بھرنا آسان نہیں ہو گا، دو سے تین کلو میٹر میں پھیلے پریڈ گراؤنڈ میں دو تین لاکھ سے کم افراد جمع ہوئے تو تحریک انصاف کیلئے دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ہماری دانست میں عمران خان 27 مارچ کے جلسہ میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیں گے یا استعفیٰ پیش کر دیں گے۔یہی وہ سرپرائز ہو گا جس کا غلغلہ تھا، تحریک انصاف کی جانب سے مگر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے سرپرائز کا کسی کو علم نہیں ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے وزیر اعظم کے قریبی احباب بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کیا کرنے والے ہیں، شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری کے بیانات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ تحریک انصاف نئے انتخابات کا فیصلہ کر چکی ہے جس کا اعلان ہونا باقی ہے۔ وزیرا طلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ نئے الیکشن کیلئے تیار ہیں مگر تحریک عدم اعتماد کے بعد ہی لائحہ عمل سامنے لائیں گے، انہوں نے ملفوف الفاظ میں یہ بھی کہا کہ بجٹ سے پہلے حکومت کے خلاف تحریک کی ضرورت نہ تھی کیونکہ بجٹ کے بعد الیکشن مہم شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ممکن ہے الیکشن وقت سے پہلے ہو جائیں، انہوں نے ایمرجنسی کی بھی بات کی ہے۔ وفاقی وزراء کے ان بیانات سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف اندرون خانہ نئے الیکشن کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن بھی یہی چاہتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے ہی وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دے دیں۔ مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے ایک پروگرام میں ان خیالات کا اظہار بھی کیا ہے کہ مستعفی ہونا عزت دار لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
تحریک انصاف آخری مرحلے میں بھی اقتدار کو بچانے کیلئے تمام تر حربے آزما رہی ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس کو ملتوی کرنا اسی گیم کا حصہ ہے، اجلاس طلب کرنے میں تاخیر سے لے کر ملتوی کرنے تک سپکیر قومی اسمبلی کی جانب داری کھل کر سامنا آ گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا تاخیری حربے وزیر اعظم عمران خان کو بچا سکیں گے؟

مزید پڑھیں:  خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں