صاحبو نیک و بد سمجھائے

صاحبو!ہم نیک و بد سمجھائے دیتے ہیں

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ اب28مارچ سوموار کو ایوان میں پیش ہوگا، فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک دن قبل اپنے پتے شو کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس موقف کو پھر دہرایا کہ استعفیٰ یا این آر او نہیں سرپرائز دوں گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت گرائی گئی تو چپ کرکے گھر میں نہیں بیٹھوں گا۔ میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت جائے یا جان اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ چوری کے پیسے سے حکومت گرانے آئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کیا میں لڑائی سے قبل ہاتھ کھڑے کرکے شکست مان لوں۔ انہوں نے اپنے اس دیرینہ موقف کو پھر دہرایا کہ شہباز شریف کے ساتھ بیٹھنا اپنی توہین سمجھتا ہوں، چوروں سے ہاتھ ملانے یا ملاقات کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اپنی پچیس سال کی جدوجہد سے پیچھے ہٹ گیا ہوں۔
اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد سے بنے حالات اور برپا ہوئی سیاسی گرماگرمی میں وزیراعظم تقریباً روزانہ کسی تقریب’ جلسہ یا میڈیا ٹاک میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا ویسے تو تحریک عدم اعتماد سے قبل بھی یہی انداز بیاں تھا البتہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد ان کے لہجے میں تلخی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اس تلخی کے مثبت و منفی ہر دو اثرات کا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور خود عوام میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوروز قبل انہوں نے سوال کیا کہ ”کیا میں لڑائی سے پہلے شکست مان کر بیٹھ جائوں”۔ ان خدمت میں یہ عرض کیا جانا چاہئے کہ تحریک عدم اعتماد سیاسی و پارلیمانی عمل کا حصہ ہے یہ لڑائی ہے نہ جنگ’ دستور اور جمہوریت میں کہیں اس کی نفی نہیں کی گئی نہ ہی دنیا میں کہیں کسی تحریک عدم اعتماد کے جواب میں اس طرح کا رویہ اپنایا جاتا ہے جو ان دنوں ہمارے ہاں قدم قدم پر دیکھنے میں آرہا ہے ۔ وزیراعظم جب بھی اپوزیشن کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ان کے بعض رفقا اور حامی مزید تند لب و لہجہ میں بات کرنے لگتے ہیں۔ اب تو بات توتکار سے نکل کر گالیوں تک جا پہنچی ہے ، یہ عرض کیا جانا چاہئے کہ مناسب یہی ہوگا کہ اختلافات کو سیاست تک محدود رکھا جائے، ذاتی دشمنیوں کا سا ماحول نہ بنایا جائے۔یہی مشورہ اپوزیشن کے ان رہنمائوں کے لئے بھی ہے جو سیاسی روایات کی پامالی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ نہ بیٹھنے کے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے یہ کہنا ہے یہ میری توہین ہے تو اس ضمن میں بھی یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی جماعت کو 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے بعد سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور ووٹ ڈالنے والے اس ملک کے شہری ہیں نیپال یا برما کے نہیں ، ان(شہباز شریف)پر کرپشن و اقربا پروری کے الزامات و ریفرنسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، جمہوری نظام میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اپنے اپنے دائرہ کار میں ایک طے شدہ کردار ہے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک پارلیمانی روایات کے مطابق تعاون سے گریز کرے گا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران مسائل ہی پیدا ہوئے پھول کہیں نہیں کِھل پائے ۔ کسی معاملے پر اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کو مل بیٹھ کر بات کرنا پڑتی ہے تو ملاقات امورِ مملکت کے لئے ہوگی نہ کہ ذاتی تقریب جس میں وہ شرکت نہیں کرنا چاہتے ۔ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وزیراعظم اور ان کے رفقا کو پارلیمانی روایات کے مطابق کوششیں کرنے کا حق حاصل ہے اس پر قدغن کوئی بھی نہیں لگاسکتا۔ فوج سے حکومت کے تعلقات کی عوام اور میڈیا پر بحث ارباب حکومت کریں یا اپوزیشن رہنما، یہ کسی بھی طور درست نہیں۔ مسلح افواج دستور کی اسی طرح پابند ہے جیسے دوسرے محکمے اور ادارے اور خود پارلیمان و حکومت۔ وزیراعظم 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ کررہے ہیں۔ متحدہ حزب اختلاف بھی جلسہ کرنے جارہی ہے۔ عوامی رابطہ مہم کا جمہوری حق دونوں خوشی کے ساتھ استعمال کریں البتہ دونوں سے درخواست ہے کہ ایسا ماحول بنانے سے گریز کریں جس سے کشیدگی پیدا ہو اور نظام کے لئے کوئی خطرہ۔
وزیراعظم کو بالکل ڈٹ کر تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ استعفیٰ دینے کی بظاہر کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہاں انہیں اس امر کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے بعض رفقاء بالخصوص شہباز گل ‘شیخ رشید اور حماد اظہر کو ہدایت کریں کہ میڈیا ٹاک اور عوامی خطابات میں سماجی اخلاقیات کے دامن کو تھامے رہیں۔ حکومت ساڑھے تین سالوں میں اپنے انتخابی منشور کے مطابق ایسے کام نہیں کرپائی جن کی وجہ سے عام آدمی سکھ کا سانس لے پاتا۔ مہنگائی اور دوسرے مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہی ہوئے حالت یہ ہے کہ عام شہری کیلئے دووقت کی روٹی کا حصول ایک چیلنج بن گیا ہے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے ، کیا ان مسائل کو حل کرنا ان کی حکومت کا فرض نہیں تھا؟ ہم مکرر حکومت اور اپوزیشن سے درخواست کریں گے کہ میدان سیاست میں پانی پت کا جنگی ماحول بنانے سے گریز کریں۔ ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے جمہوری اقدار پامال ہوں یا کسی محکمے اور شخص کی توقیر پر حرف آئے۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنی غلطیوں کی اصلاح خود کریں اور اپنے اختلافات بھی خود طے کریں۔ ایک دوسرے کی حب الوطنی پر انگلی اٹھائیں نہ ہی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکائیں مثال کے طور پر وزیر اعظم کیلئے ملک بھر میں لگوائے جانے والے پوسٹرز اور پینا فلیکسز پر انہیں محافظ ناموس رسالت لکھنا مذہبی ہتھکنڈے کے علاوہ کچھ نہیں ملکی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس طرح کے نعروں اور القابوں کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اقتدار ریت کی طرح مٹھی سے پھسلتا جارہا ہو ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ارباب حکومت اور اپوزیشن کے زعما دونوں اس امر کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے کہ سیاسی اختلافات پر جمہوری روایات کے مطابق معاملات آگے بڑھیں تحریک عدم اعتماد پر خالص پارلیمانی روایات کے مطابق عمل ہو تاکہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے نیز یہ کہ طرفین اپنے اختلافات کی بنیاد پر نفرتیں کاشت نہ کریں کیونکہ یہ ملک ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ”ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں”۔

مزید پڑھیں:  رعایا پر بجٹ حملہ