من در پسِ گرامی و اقبال آمدیم

25مارچ 1991کو جب اہل ڈیرہ ،فارسی کے بلند پایہ اور صاحبِ دیوان شاعر عطاء اللہ خان عطا کی تدفین کے بعد قبرستان سے لوٹنے لگے تو پروفیسر نسیم نواز مرحوم نے عطا صاحب کے بیٹے عنایت اللہ خان گنڈہ پور مرحوم کے قریب آکر کہا کہ ” ہم نے ابھی ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک بڑے مسلمان کو مٹی کے سپرد کردیا ہے”۔ اس اعترافِ کردار سے بہت پہلے ڈیرہ کے علماء نے بھی ایسی ہی گواہی دی تھی جب امیرِشریعت عطاء اللہ شاہ بخاری نے ڈیرہ کی جامع مسجد کلاں میں موجود علمائے کرام سے سوال کیا کہ عطاء اللہ خان وکیل میرے دوست ہیں ، آپ بتائیں کہ وہ کیسا آدمی ہے؟ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ نیک، مخلص اور سچے مسلمان ہیں۔یہ جواب سنتے ہی شاہ جی نے ہاتھ اُٹھاکر کہا ” اے اللہ ! تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمیشہ میری مدد فرمائی اور مَیں نے دوستوں کا غلط انتخاب نہیں کیا”۔عطاء اللہ خان کی پیدائش سال 1898 میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں ٹکواڑہ میں ہوئی،ان کے زمیندار گھرانے میں علم کی بڑی قدرو منزلت تھی۔ اسلامیہ کالج پشاور میں سالِ اول کی کلاس کا اجراء سال 1915میں ہوا تو اُنہوں نے یہاں داخلہ لے کر کالج کے اولین طلباء میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیاآپ نے 1919میں کالج سے گریجویشن کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ عطا صاحب نے 1924سے اپنے شہر ڈیرہ میں وکالت کے پیشے کا آغاز کیا۔ اُس وقت ڈیرہ بار کے کل تیس وکلاء میں صرف چار وکیل مسلمان تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل سرکاری وکیل بھی رہ چکے تھے۔سال1931میں ہندو مسلم فساد سے کئی لوگ زخمی ہوئے اور شہر کی بے شمار دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ حکومت نے سات سو مسلمانوں کو گرفتار کیا۔ عطا صاحب ان کے واحد وکیل تھے ،کسی معاوضہ کے بغیر مقدمہ لڑا اور تمام ملزمان کو رہائی دلائی۔عطاء اللہ خان پچاس برس تک وکالت کے پیشہ سے منسلک رہے ۔وہ ایک زیرک قانون دان تھے اور بہت سے وکلاء کو نامور بنانے میں اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کیا۔
عطاء صاحب کی بڑی پہچان اُن کا شاعر ہونا ہے۔ قدرت نے اُنہیں فطری طور پہ ایک شاعر پیدا کیا تھا، فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے جنہوں نے بیس ہزار کے قریب اشعار فارسی میں کہے۔ ان کے کلیاتِ شعری شائع ہو چکے ہیںجس میں حمد ونعت، قصیدہ و مرثیہ، غزل و مثنوی اور نظمیں و رباعیات شامل ہیں۔ پاکستان میں علامہ اقبال کے بعد عطاء صاحب ہیں جنہوں نے فارسی زبان میں بھرپور شاعری کی ۔ وہ خود کہتے ہیں کہ
من در پس گرامی و اقبال آمدیم
بر عارض عروس خن خال آمدیم
(میں مولانا گرامی اور اقبال کے بعد فارسی شعر گوئی میں ایسے آیا ہوں جیسے سخن کی دلہن کے گال پر تل ہوتا ہے) انہوں نے سترہ سال کی عمر میں شعر کہنے شروع کیے اور سب سے پہلے اُردو زبان میں شاعری کی۔ اُنہوں نے ایک نظم اپنے اسلامیہ کالج کے بانی سر صاحبزدہ عبدالقیوم خان کی مدح میں لکھی جو اپنے زمانہ طالب علمی میں اُن کے سامنے پڑھ کر سنائی۔ اسی طرح اُنہوں نے اپنی ایک نظم قائد اعظم محمد علی جناح کو ڈیرہ آنے پر سنائی۔ یہی نظم پاکستان کے پہلے جشنِ آزادی کے موقع پر ریڈیو سٹیشن پشاور سے نشر کی گئی۔ ان کی شاعری میں حمد ومناجات ان کے سچے مسلمان ہونے اور نعت ومنقبت ان کے سچے عاشقِ رسولۖ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ عطا مرحوم کو شاعری میں مثنوی کی صنف بڑی عزیز رہی۔اُنہوں نے تیس سے زیادہ مثنویاں لکھی ہیں۔ ان میں ایک مثنوی’ درحالاتِ ناہموار’ سات سو اشعار پر مشتمل ہے جو قیامِ پاکستان کے آٹھ سال بعد لکھی۔ اس وقت کے حالات کو مدِنظر رکھ کر شاعر نے اپنی چشمِ باطن سے جن خطرات و حادثات کو دیکھ لیا تھا ،آج پوری قوم انہی خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ ایک اور مشہور مثنوی’ مکالمہ ڈاکٹر اقبال و خودی’ میں ظاہر کیا ہے کہ خودی پاکستان چھوڑ کر چلی گئی ہے کیونکہ اسے اقبال کے دیس میں بڑی شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ خودی آخر میں یہی کہتی ہے ”حکمرانوں کا مقام خاک سے افلاک تک پہنچ گیااور قوم کا قیام زیرخاک جا ٹھہرا۔قوم سخت پیچ وتاب کھائے ہوئے ہے اور کسی بھی وقت مہیب انقلاب کا دیو سر اُٹھا سکتا ہے”۔ معروف ادبی جریدہ’عطا’ انہی کے نام سے منسوب ہے۔ جس کے مستقل’ گوشۂ عطا’ میں ان کے کلام کی تشریح پائی جاتی ہے۔ پشتو کے شاعر و دانشور پریشان خٹک کہا کرتے تھے کہ ڈیرہ کی خوش قسمتی ہے کہ عطا صاحب یہاں پیدا ہوئے اور عطا مرحوم کی بدقسمتی کہ وہ ایک ایسی جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اُن کی صحیح تشخیص نہ ہو سکی۔ اگرچہ بہت سے لوگ میڈیا اور دیگر سہاروں کے ذریعے وقتی شہرت تو حاصل کر لیتے ہیں مگر عطا مرحوم جیسی بلند طبع اور نابغہ روزگار ہستیوں کے بارے شاعر نے کیا خوب کہا ہے
یہ لوگ جامِ اجل مسکرا کے پیتے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل کے جیتے ہیں

مزید پڑھیں:  نذرانہ دیئے بغیرنیٹ میٹرنگ؟