مشرقیات

گھر کے باہر چبوترے پر چٹائی بچھا کر بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک مانگنے والا آیا دینے کے لئے کچھ پاس نہ تھا۔ نیچے سے چٹائی نکالی اور مانگنے والے کو دے دی ۔ سید احمد خان لکھتے ہیں مولانا شاہ رفیع الدین ہاتھ کے بڑے کھلے تھے اس طرح اللہ کی راہ میں بانٹتے تھے کہ خود ان کے پاس کچھ نہ بچتا تھا سورہ آل عمران میں ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ”کہ تنگی ہو یا آرام اللہ کے لئے اپنا ہاتھ کبھی نہ روکو ”۔
شاہ رفیع الدین اسی پر عمل کرتے تھے شاہ صاحب وہی ہیں جنہوں نے اردو میں کلام اللہ کا سب سے پہلا ترجمہ کیا۔
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں سید الوریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپۖ گھر کے لئے بازار سے سامان لے آتے تو نہ صرف اپنے لئے بلکہ محلے کی بڑی بوڑھیوں کا بھی سودا آپۖ لایا کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول نے آپس کی ہمدردی اور بھائی چارے کے جو عملی سبق دیئے ہیں ان کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔صحابہ کرام آنحصرت ۖ کے ایک ایک طریقے پر چلنے کی کوشش کرتے تھے کچھ پتہ نہیں ہم کیوں اپنی زندگی کے اچھے اچھے اصولوں کو چھوڑ کر نمود ونمائش میں گرفتار ہو رہے ہیں۔شاہ رفیع الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے ایک دنیا ان کی عزت کرتی تھی دور دور تک ان کی نیکی اور پاسداری کی شہرت پھیلی ہو ئی تھی لیکن شاہ صاحب کبھی اپنے آپ کو ایک معمولی آدمی سے زیادہ نہ سمجھتے تھے علمیت کا غرور خاندان کا فخر جاہ و مرتبے کا خیال نام کو نہ تھا ۔ نہ اس کوشش میں رہتے کہ سرکاردربار میں اپنی رسائی کا بھرم قائم کریں تڑپ دل میں تھی تو بس ایک ہی کہ زندگی کے ہر لمحے میں سرکار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہوتی رہے ایک روز بازار گئے ایسے کہ محلے کی بہت سی عورتوں کا سودا خریدنا تھا کہاں تسبیح و مصلی کہاں رشد و ہدایت کی محفلیں اور کہاں پنساری اور قصائیوں کی دکانیں مگر شاہ صاحب بلا تردد وہاں پہنچے ایک ایک کا سامان خریدا اور رومال میں باندھنے لگے ۔ رومال پھر رومال تھا کوئی عمر و عیار کی زنبیل تو تھی نہیں ۔ رومال بھر گیا اور سودا بچ رہا یہاں کیا فکر تھی اللہ کے نیک بندے نے بہت سی چیزیں کرتے میں بھر لیں پھر بھی کچھ سودا باقی رہ گیا اب اسے کس میں باندھتے خیال آیا کہ سر پر ٹوپی ہے فوراً اسے سر سے اتار کر بچا ہوا سودا اس میں لے لیا اور خوش خوش گھر کی طرف لوٹنے لگے ۔ ایک عقیدت مند نے یہ منظر دیکھا کہ کندھے پر رومال پڑا ہے جس سے پوٹلیاں لٹک رہی ہیں ۔ دامن سودے سے بھرا ہے اور ٹوپی ہاتھ میں ہے اس میں بھی سودا ہے تو بولا۔۔۔ حضرت یہ ٹوپی میں کیا ہے ؟ فرمایا۔۔۔ دال! اس نے کہا ۔۔ دال اس میں سے نکال کر مجھے دیدیجئے میں اپنے رومال میں لے چلونگا ٹوپی آپ اوڑھ لیجئے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ایک وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپۖ نے بازار سے کچھ سودا لیا میں نے چاہا کہ سامان میں اٹھا لوں لیکن آپۖ نے منع کر دیا فرمایا۔۔۔۔ جس کا سامان ہو ۔ اسی کو اٹھانا چاہئے شاہ رفیع الدین صاحب اس ارشاد نبویۖ کو خوب جانتے تھے ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید سامان عقیدت مند کو تھما دیتا انہوں نے بڑے آرام سے فرمایا۔۔۔ نہیں تم فکر نہ کرو!مسلمان کی ہر چیز کام میں آنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں