خارجہ پالیسی کی نئی ترجیحات کے تعین کا وقت

وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ کو تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے امریکا اور بھارت کے ساتھ تعاون کی ضرورت کا اعادہ کیا ہے دوسری جانب امریکہ کے دفترخارجہ کی جانب سے بھی اچھے تعلقات کا عندیہ دیاگیا ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے حلف اٹھائے جانے کے بعد چین کے سرکاری میڈیا نے کہا تھا کہ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات گزشتہ حکومت سے زیادہ بہتر ہوں گے۔پاکستان اور چین کے ماہرین مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے پراعتماد ہیں’ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ نئی حکومت پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے تمام منصوبوں کو متاثر نہیں ہونے دے گی۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی وزیراعظم شہبازشریف کو ٹیلی فون کرکے وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارک دی تھی۔پاکستان مسلم لیگ( ن) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر اردوغان نے کہا کہ آپ کے وزیراعظم منتخب ہونے کی خبر پر بے حد مسرور ہوں۔ہر نئی حکومت کے لئے خارجہ پالیسی کا تعین ایک چیلنج رہا ہے بین الاقوامی تعلقات اور حالات کے جس دور میں پاکستان میں حکومت تبدیل ہوئی ہے یہ نہایت نازک دور ہے یہاں تک کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی میں مبینہ طور پربعض ممالک سے تعلقات اور اس حوالے سے ملک کی پالیسی کا بھی تذکرہ جاری ہے بہرحال اس سے قطع نظر اس وقت روس ‘ یوکرائن جنگ کے تناظر میں خاص طور پر خارجہ پالیسی اور دنیا کے ممالک سے پاکستان کے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد عالمی رہنمائوں کی جانب سے جس طرح مبارکباد اور تعلقات میں بہتری لانے کی توقعات کا اظہار سامنے آیا ہے اور حکومت کو تعاون کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے وہ اہمیت کا حامل معاملہ ہے خود وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پہلے ہی خطاب میں دنیا کے ممالک سے سفارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور معاملات میں اصلاح کے حوالے سے بات کرکے اپنی ترجیح واضح کر دی ہے ۔ دیکھا جائے تو چند ایسے دوست ممالک ہیں جن سے ہر دور میں پاکستان کے نہ صرف اچھے تعلقات رہے ہیں بلکہ یہ ممالک ہر اچھے برے حالات کے ساتھی ثابت ہوئے ہیں ان سے تعلقات میں جو مبینہ سرد مہری محسوس کی جارہی تھی توقع ہے کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد اس میں بہتری آئے گی خود ان ممالک کی جانب سے پیغامات میں اس کا واضح عندیہ ملتا ہے کہ وہ نئی حکومت سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ مطمئن اور بہتر تعلقات قائم کرنے کے منتظر ہیں۔اگرچہ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات ماضی جیسے نہیں رہے لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے لئے باہمی تعلقات میں بہتری ناگزیر رہا ہے ۔حالیہ دنوں میں جو غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی نئی حکومت کے قیام کے بعد ان غلط فہمیوں کا دونوں جانب سے خاتمہ اور تدارک کے عزم کا اظہار سامنے آیا ہے دنیا کے اہم ممالک کی جانب سے آنے والے پیغامات کے تناظر میں بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آمدہ دنوں میں پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے بلکہ ان ممالک کے ساتھ مختلف معاشی و اقتصادی روابط میں بھی سرگرمی نظر آئے گی جو وقت کی ضرورت ہے ۔
سیاست میں عدم برداشت اور بدتمیزی کاکلچر
سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوںیہاں تک کہ بعض قائدین کی جانب سے بھی سیاسی مخالفین کو بری طرح مطعون کرنے کا جو سلسلہ چلا آرہا ہے اس سے سیاسی عدم برداشت کی فضا پیدا ہونا فطری امر تھا صرف سوشل میڈیا ہی پر نہیں بلکہ مختلف ٹی وی پروگراموں میں بعض اوقات اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کا عمل بھی چلا آرہا ہے ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک خاتون رکن اسمبلی کے بے ہوش ہونے کی نوبت تک آگئی اس طرح کے واقعات بڑھتے بڑھتے اب نجی محفلوں میں آوازیں کسنے اور تشدد تک ہونے لگا ہے ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس ضمن میں قصور وار کون ہے اور پہل کس نے کی بہرحال اسلام آباد میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے آئندہ اس طرح کے واقعات کے اعادے کا تدارک کرنے میں سیاسی قائدین اور جماعتوں کو فوری توجہ دینی چاہئے سیاسی عناصر ایسا کوئی کلچر تشکیل نہ دیں جس کے باعث سیاست کے سیاست گلی گلی ‘ محلہ محلہ یہاں تک کہ خاندان تک متاثر ہوں سیاست میں عدم برداشت کا کلچر ‘ الزام تراشی اور سرعام آوازیں کسنے کے عمل سیاسی سے تربیت کے فقدان کی نشاندہی ہوتی ہے جسے روکنے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لئے ضروری ہو گا کہ اس طرح کی حرکتوں سے اجتناب کیا جائے جس سے تصادم اور تشدد کی نوبت آئے ۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی کے کرایے