جب مسیحا لٹیرے بن جائیں

جب مسیحا لٹیرے بن جائیں!

سماجی اقدار کی بلندی یا پستی کا اندازہ مشکل وقت میں ہوتا ہے، جب شہری کسی آزمائش سے دوچار ہوں تو ادارے اور افراد کس انداز میں پیش آتے ہیں؟ اگر شہریوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر معاملات انجام دیئے جاتے ہوں تو ایسا سماج پستی کی گہرائی میں گرا ہوا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں شہریوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے گروہ ہر گلی محلے میں موجود ہیں، کاروبار کے نام پر بڑی مہارت سے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے، تعجب اس بات پر ہے کہ یہ دھندہ سرکاری اداروں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے مگر ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے دفعتاً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے عوام کو بے رحم بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
ایک روز قبل انتہائی سیریس حالت میں اہلیہ کو گھر کے قریب ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گئے کیونکہ ایمرجنسی کی صورت میں انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد بیمار کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ ہسپتال کے استقبالیہ کاؤنٹر سے معلوم ہوا کہ اس وقت صرف وی آئی پی بیڈ دستیاب ہے، جس کا یومیہ پندرہ ہزار روپے چارج کیا جائے گا۔ انسان جب مجبور ہوتا ہے اور اپنے پیاروں کی تکلیف سامنے ہوتی ہے تو یہ پروا نہیں کرتا ہے کہ اس سے اضافی پیسوں کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے، سو ہم نے فوری طور پر مریضہ کو ہسپتال میں داخل کرا دیا تاکہ اسے طبی امداد فراہم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ مریض داخل ہوتے ہی ادویات کی ایک طویل لسٹ تھما دی گئی، ہزاروں روپے کی ادویات فراہم کی گئیں تو نرسنگ چارجز، ڈاکٹر چیک اپ چارجز اور کئے جانے والے ٹیسٹ کے چارجز ادا کرنے کا کہا جو ہم نے فوری ادا کر دیئے۔ ہم سے بھاری رقم بٹورنے کے اگلے ہی لمحے ہمیں کہہ دیا گیا کہ آپ کے مریض کا کیس مشکل ہے آپ اسے بڑے سرکاری ہسپتال لے جائیں۔ یہ سن کر ہماری حیرت کی انتہاء نہ رہی، کیونکہ جب کیس کو سنبھالنا آپ کے بس کی بات نہیں تھی تو مریض کو ایڈمٹ کیوں کیا گیا اور اگر مریض کو ایڈمٹ کر لیا گیا تھا تو ادویات اور ٹیسٹ کیوں کرائے گئے؟
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو لوٹا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ مجبوری کی وجہ سے یا اپنی عزت کی خاطر ہسپتال کی ہر بات کو مان لیتے ہیں اور جو بل بنتا ہے اسے ادا کر کے اپنے مریض کو کسی دوسرے ہسپتال شفٹ کر لیتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی شخص شکایت کر دے کہ جب مریض ایک گھنٹہ بھی ہسپتال میں نہیں رہا ہے اور اسے کسی قسم کی طبی امداد بھی نہیں دی گئی ہے تو اس سے کس چیز کے پیسے وصول کئے جا رہے ہیں تو اسے لوگوں کے سامنے بے عزت کیا جاتا ہے کہ جب تک آپ کلیرنس نہیں کریں گے آپ مریض کو نہیں لے جا سکتے ہیں یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے کیونکہ مریض کے لواحقین کیلئے ایک طرف مرض کی کنڈیشن ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف اسے ہسپتال والوں کی بلیک میلنگ کا سامنا ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں بہت سے لوگ ہسپتال والوں کا ہر مطالبہ تسلیم کر لیتے ہیں۔
صرف میری فیملی کو ہی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، ہر اس شخص کو اس سے ملتی جلتی صورتحال سے دو چار ہونا پڑتا ہے جو پرائیویٹ ہسپتال کا انتخاب کرتا ہے۔ آئے روز اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر ریاست نے جیسے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اداروں کی بے حسی کی وجہ سے ہسپتال دیدہ دلیری کے ساتھ شہریوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں پریشان کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پرائیویٹ ہسپتال کسی ادارے کو جواب دہ نہیں ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن اداروں نے عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے انہوں نے آنکھوں پر مفاد کی پٹی باندھی ہوئی ہے۔ ہمیں دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مریض کی کنڈیشن بگڑ گئی اور جب بڑے ہسپتال پہنچے تو معلوم ہوا کہ مریض کو طبی امداد فراہم کرنے میں دیر کر دی گئی جس کی وجہ سے ہمارے دو نومود بچے پیدائش کے فوری بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔
طبیب کو مسیحا اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ انسانی جانوں کو بچانے کیلئے حتی المقدور کوشش کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ مقدس پیشہ ایک کامیاب کاروبار بن چکا ہے، ایسا کاروبار جس میں خسارے کا تصور نہیں ہے، جس طرح کئی لوگ ماہر تعلیم نہ ہونے کے باوجود محض سرمائے کے بل پر اسکول کھول کر کاروبار کر رہے ہیں اسی طرح بہت سے لوگ میڈیکل کی تعلیم نہ ہونے کے باوجود ہسپتال کھولے بیٹھے ہیں، اچھی سیلری پر چند نامور ڈاکٹرز کو پینل پر رکھا جاتا ہے جو آن کال خدمات فراہم کرتے ہیں، یہ ہتکھنڈہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے آزمایا جاتا ہے تاکہ بڑے نام آویزاں کر کے عوام کو گھیرا جا سکے یا اس وجہ سے تاکہ کاروبار کو قانونی شکل دینے میں آسانی ہو۔ اندازہ لگائیں جب علاج کو کاروبار کے طور پر کیا جائے گا تو انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کی بجائے جان بوجھ کر ایسا راستہ اختیار کیا جائے گا جس سے کاروبار فلاپ نہ ہو، ایسا صرف پاکستان جیسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں ریاستی سطح پر شعبہ صحت کمزور ہوتا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مفاد پرست افراد اپنی دکانیں کھول لیتے ہیں۔ صحت کارڈ کا بڑا غلغلہ تھا مگر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کتنے لوگوں کو صحت کارڈ کی سہولت دسیتاب ہے؟ ہمیں کارڈ فراہم کرنے کی بجائے پورے شعبہ صحت کو ایسے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے جس میں انسانی جان کو محفوظ بنانا اولین ترجیح ہو۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام