خارجہ پالیسی کا ابہام

پاکستان متعدد مواقع پر کسی نہ کسی ایسے عالمی تنازعے میں پھنسا ہے جہاں اسے مجبوراً ایک فریق کا انتخاب کرنا پڑا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اُس دوسرے فریق کی طرف سے پیش کردہ ان امکانات اور مواقع سے محروم ہونا پڑا ہے جس نے اس نے نظراندازکیا۔ سوویت یونین ( موجودہ روس) کے ساتھ تعلقات ترک کرنا ایک ایسی غلطی تھی جس کا ادراک اب ہمارے پالیسی سازوں کو ہونے شروع ہو گیا ہے لیکن اس غلطی کا ازالہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس پیچیدہ قطبی دنیا میں کسی ملک کے لئے غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل رہنا مشکل ہوتا ہے اور دونوں طرف کھیلنا صرف اسی صورت ممکن ہے جب دونوں فریقوں کو خوش رکھا جا سکے، اس کے لیے ایک مؤثر اور حالات سے ہم آہنگ آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح کی پالیسی بھارتی پالیسی سازوں نے تیار کی اور اس پر عملدرآمد بھی ہوا۔ اگرچہ بھارت کے بڑھتے ہوئے داخلی مسائل کا تو سامنا ہے لیکن اس نے اب تک روس کے ساتھ خاص طور پر روس،یوکرین کی جاری جنگ کے دوران اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے مغرب کے دباؤ کو کامیابی سے برداشت کیا ہے، صرف یہی نہیں اس نے مغرب کے ساتھ مستحکم تعلقات برقرار رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے کئی بار گریز کیا ہے، جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس کو پابندیوں کا نشانہ بنایا تو اسے خوراک کی قلت کا خدشہ لاحق ہوگیا چنانچہ اس نے ضرورت پوری کرنے کے لیے خوراک کی فراہمی کے لیے بھارت سے رجوع کیا تو بھارت نے اسے مثبت جواب دیا۔ حال ہی میں روس اور بھارت نے دفاعی معاہدے کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، دوسری طرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہند بحرالکاہل کے خطے میں بھارت امریکہ کا سب سے بڑا سٹریٹجک شراکت دار بھی ہے
بھارت دونوں حریف طاقتوں کے کیسے تعلقات برقرار رکھے ہوئے؟ دراصل بھارت اس وقت اپنے آپ کو بالکل اسی جیوسٹریٹیجک مقام پر تصورکرتا ہے جو کسی وقت پاکستان کا ہوا کرتا تھا، جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں چین کے اثرو رسوخ پر قابو پانے میں امریکہ کا شراکت دار ہونے کی وجہ سے بھارت کو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ اپنے غیر جانبدارانہ تعلقات کی بنیاد بنانے میں مدد ملی، بھارت چین کے ساتھ تصادم کے امکان سے بھی محفوظ ہے کیونکہ روس یقیناً چین اور بھارت دونوں کا اتحادی ہونے کے ناطے ثالث کا کردار ادا کرے گا، روس اپنے ہتھیاروں کے خریدار کے اپنے سب سے بڑے اسٹریٹجک شراکت دار سے تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ امریکہ بھارت پر روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے اس پر پابندیاں لگا سکتا ہے لیکن موجوہ حالات اور موقع پر ایسا کرنا امریکی مفاد کے حق میں نہیں ہے، روس یوکرین جنگ کے دوران امریکہ اپنے کواڈ اتحادیوں(آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکہ) کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل میں ہے اور یہ بات بھارت کو بھی اچھی طرح معلوم ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع کو اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے جب کہ روس یوکرین جنگ ختم ہونے کے بعد بھی امریکہ کو چین سے مقابلے کے لیے بھارت کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔
یہ ڈھال جیسی خارجہ پالیسی، جس کی سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی تعریف کی ہے، بھارت کو پاکستان کے ساتھ بھی اہم مسائل پر اپنا مؤقف منوانے میں مدد دے سکتی ہے، مثال کے طور پر کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان میں سے دوکی حمایت بھارت کی طرف ہے۔ اگر پاکستان بھی ماضی اور حال میں یکساں بنیادیں بناتا تو پاکستان کے لیے ایسے تنازعات میں غیر وابستہ رہنا ممکن بنایا جا سکتا تھا، پاکستان امریکہ اور ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت روس کے ساتھ بیک وقت تعلقات بنانے کے لیے اپنی حکمت عملی نہیں بنا سکا اس کے بجائے، اپنی اقتصادی ضروریات کی وجہ سے، اسے غیر ارادی طور پر ایک بار پھر روایتی رخ اختیار کرنا پڑا ہے، غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کبھی اس کی مرضی کے مطابق نہیں رہنے دیا، ہماری خارجہ پالیسی مسلسل کمزور رہی ہے ، ہمیں ابہام سے پاک ایسی آزاد خارجہ پالیسی تیار کرناہوگی جس میں ریاست کے مفادات مقدم ہوں ۔( بشکریہ،دی نیوز، ترجمہ:راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ