فلسطین میں لہو کی برسات

برسات کا موسم ارض فلسطین پر خون کی برکھا برسا گیا۔فلسطین پر خون کی برسات کا موسم سال چھ ماہ بعد سایہ فگن نہ ہو ایسا اب ممکن نہیں رہا ۔حیلوں بہانوں سے اسرائیل کوئی ایسی کارروائی کرگزرتا ہے کہ فلسطین کا زخم رسنے لگتا ہے اور اس کا نقصان کسی اور کو نہیں صرف کمزور اور تنہائی کا شکار فریق یعنی فلسطینی عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔راکٹوں کا دھواں ،گھروں کا ملبہ اور گرد سے اٹے لاشے ایک تماشا ہوتا ہے اور پھر جب جی بھر جاتا ہے تو علاقے کے معززین سیز فائر کا احسان کرکے بیچ میں کود پڑتے ہیں اور یوں سیز فائر تک فلسطینیوں کا کچومر نکل چکا ہوتا ہے۔دروکرب کا ایک باب رقم ہوچکا ہوتا ہے ۔اسرائیل کی طرف ایک پٹاخہ بھی چلے تو وہ پیشگی قدم کے طور پر غزہ کی پٹی پر قیامت ِصغریٰ برپا کرتا ہے ۔ابھی رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ پر سخت گیر یہودیوں نے دھاوا بول کر فلسطین میں آگ اور خون کا ایک باب رقم کیا تھا ۔چند ہی ماہ گزرے تھے کہ غزہ سے پروشلم کی طرف راکٹ آنے کے نام پر اسرائیل ایک بار پھر فلسطینیوں پر جھپٹ پڑا ۔اسرائیل نے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کے علاوہ راکٹ داغنے کا سلسلہ شروع کیا ۔جس سے غزہ کی ساحلی پٹی کی کئی بلند وبالا عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں بدل گئیں۔چھتیس افراد جاں بحق ہوئے جن میں چھ معصوم بچے اور کئی خواتین بھی شامل ہیں ۔تین سو سے زیادہ افراد ان حملوں میں زخمی ہوگئے ۔غزہ اور دوسرے علاقوں کو بجلی فراہم کرنے والے پاور پلانٹ بند ہو گئے اور جس سے یہ علاقے تاریکی میں ڈوب گئے ۔اسرائیل نے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے بعد اعلان کیا کہ غزہ سے اسرائیلی حدود میں پانچ سو راکٹ داغے گئے جنہیں اسرائیل کے جدید ائر ڈیفنس سسٹم نے ناکارہ بنادیا ۔کس قدر دل خراش معاملہ ہے کہ فلسطینیوں نے اسرائیل پر پانچ سو راکٹ داغے ایک بھی ہدف تک نہ پہنچ سکا اور اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا گیا اور اس کوشش میں ایک اسرائیلی کو بھی گزند نہیں پہنچی اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بموں کی بارش کرکے تین درجن سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔درجنوں بلند وبالا عمارتوں کو خاک کا ڈھیر بنا دیا ۔غزہ اور رملہ کی عمارتوں کی مرمت اور تعمیر نو اس یقین سے کی جاتی ہے کہ کسی بھی لمحے انہیں دوبارہ ملبے کا ڈھیر بننا ہے ۔یہ غیر یقینی کی مستقل تلوار ہے جو فلسطین کی آبادیوں کے اوپر لٹکتی چلی جارہی ہے ۔ جب ہوا میں ضائع ہونے والے راکٹوں کے ردعمل میں بھڑک اُٹھنے والی انتقام کی آگ کچھ بجھ گئی تو امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کو ثالثی کا حکم ملا اور انہوںنے ثالثی کرکے جنگ بندی کر ادی ۔جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے جہاز فلسطین پر بمباری کررہے تھے ۔اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والی پانچ سال کی معصوم بچی کی سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہوئیں مگر مجال ہے مغرب میں کوئی آنکھ نم ہوئی ہے مغرب سے کیا گلہ مسلمان دنیا نے فلسطینیوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیا ہے۔فلسطینی میڈیا اس بچی کا قصور پوچھتا رہامگر معصوم کا یہی قصور کیا کم تھا کہ اس کی آنکھیں نیلی اور بال بھورے نہیں تھے ۔ اس لئے طاقتور دنیا کی کوئی آنکھ اس کے غم میں اشکبار ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دل اس کی یاد میں بوجھل ہوتا ہے ۔یہ اس زمانے کا چلن ہے صرف اس فلسطینی بچی کا ہی المیہ ہی نہیں کرۂ ارض میں اور بہت سے معصوموں کا قصورہے ۔یوکرین کی جنگ کے بعد تو یہ قصور کچھ اور نمایاں ہو کر سامنے آیا ۔یوکرین کی جنگ جاری ہے اور مغرب یوکرین کے غموں او ر دکھوں پر ملول اور رنجور ہے ۔یوکرین کی ملبے میں ڈھلی عمارتوں پر مغرب نے ایک طوفان برپا کیا ۔جب مغرب یوکرین کے بچوں اور عورتوں کے غم میں ہلکان ہورہا تھا تو مسلمان دنیا کے زخم ہر ے ہو رہے تھے ۔فلسطینیوں کی تباہ حال عمارتوں اور بے گور وکفن لاشوں کی تصویریں جب یوکرین کی تصویروں کے ساتھ گردش کرنے لگیں تو مغرب کے پاس اس تضاد کا کوئی جواب نہیں تھا ۔اب بھی عرب دنیا اقوام متحدہ اور مسلمان ممالک کی طرف سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جو زبانی ردعمل سامنے آیا قطعی بے وقعت اور کمزور تھا ۔ایسا کمزور ردعمل ظالم کا ہاتھ روکنے کی بجائے حوصلے بڑھاتا ہے۔عجب تماشا ہے کہ ایک پٹاخہ نما میزائل کے جواب میں اسرائیل دفاع کا حق استعمال کرنے کے نام پر فلسطینی عوام پر قیامت برپا کرتا ہے اور دنیا اس وقت تک اس خونیں منظر سے لطف اندوز ہوتی ہے جب تک کہ اسرائیل کی آتش انتقام سرد نہیں ہوتی اور پھر سیز فائر کے نام پر فلسطین کو ایک اور جنگ کے لئے ذہنی اور عملی طور پر تیار کیا جاتا ہے ۔مدتوں سے سرزمین فلسطین میں یہی کھیل چل رہا ہے ۔گزشتہ پندرہ برس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان چار بڑی اور لاتعداد چھوٹی جنگیں ہو چکی ہیں اس کے باوجود فلسطینی زمانے کی ہوائوں کے مقابل کھڑے ہیں تو یہ انہی کا حوصلہ ہے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ