توبھی سخن شناس تھا ‘ درد آشنا نہ تھا

ترجیحات کا فرق ہے ‘ عوام بارشوں اور سیلاب سے مر رہے ہیں ‘ سیاسی رہنمائوں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے فرصت نہیں مل رہی ہے ‘ بلوچستان ‘جنوبی پنجاب ‘ بالائی خیبر پختونخوا سے عوام کی فریادیں سنائی دے رہی ہیں ‘ آہ و بکا کی ابھرنے والی چیخیں آسمان تک جارہی ہیں میڈیا وہاں ہونے والی تباہی سے بے خبر ہے یہ تو سوشل میڈیا ہے جو دکھا رہا ہے کہ کوہ سلیمان سے شدید بارشوں کے نتیجے میں اترنے والی پانی سے بننے والے ندی نالے بپھر چکے ہیں اور ہر طرف گائوں کے گائوں ان نالوں کی زد میں آکر تباہی و بربادی کے مناظر میں تبدیل ہو چکے ہیں سینکڑوں گھر ڈھے گئے ہیں ‘ لاتعداد انسانوں اور جانوروں کو یہ پانی نگل چکا ہے آبادیاں ‘ کچے مکان ‘ پل ‘ مسمار ہو کر زمین بوس ہو چکے ہیں ‘ لوگ کسمپرسی کی حالت میں امداد کے لئے آنکھیں فرش راہ کئے حسرت بھری نگاہوں سے سرکاری یا پھر این جی اوز کے ساتھ ساتھ خدا ترس لوگوں کی راہ تک رہے ہیں ‘ کہیں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں سنبھالنے اور انہیں ٹھکانے لگانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ‘ اس ساری صورتحال کا الفاظ میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ‘ بس دعا کے لئے ہاتھ ہی اٹھ سکتے ہیں ‘ اللہ سے رحم کی دعا ہی طلب کی جا سکتی ہے حال ہی میں بھارت نے دریائے راوی میں پانی چھوڑا تواس سے لاہور تک صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ہے ‘یہاں دو اطلاعات سامنے آئیں ایک اطلاع یہ تھی کہ بھارت نے غیر اعلانیہ طور پر دریائے راوی میں پانی چھوڑا جبکہ دوسری ا طلاع اس کے برعکس تھی اور وہ یہ کہ بھارت نے راوی میں پانی چھوڑنے کے لئے اپنے متعلقہ ڈیم کے سپل وے کھولنے کے حوالے سے پاکستان کو خبردار کر دیا ہے ‘ اب کونسی خبر درست اور کونسی غلط تھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ‘ بہرحال دو روز بعد پانی کا بہائو پہنچ گیا اور گدلا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا سیلاب کی صورت واضح کر رہا تھا ‘ اتنا البتہ ضرورہے کہ اس سے زیادہ نقصان کی اطلاعات نہیں ملیں ‘ ادھر سندھ کے اندرونی علاقوں کے ساتھ ساتھ کراچی میں حالیہ سیلابی صورتحال نے بھی مسائل کھڑے کئے اور سینکڑوں ایکڑ رقبہ زیر آب آنے سے کھڑی فصلیں تباہی کی نشاندہی کرتی نظر آئیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی سیلاب کی صورتحال نے عوام کو عذاب سے دوچار کیا ‘ غرض جوا ندازے لگائے جارہے ہیں وہ تین چوتھائی حصے پر سیلاب کے اثرات کی نشاندہی کر رہے ہیں ‘ اور حالت یہ ہے کہ چند برس پہلے جس طرح ملک میں کبھی زلزلہ اور کبھی طوفان بادوباراں سے ابھرنے والے سیلابوں کو صورتحال میں دنیا بھر میں ہماری داد رسی کی جاتی ہے اور امدادی سازو سامان کے علاوہ کروڑوں ڈالر متاثرین کی بحالی کے لئے ملتے رہے ہیں مگر مبینہ طور پر ان میں بدعنوانی کی داستانیں عام ہونے کی وجہ سے اب ہمیں مصیبت کی گھڑی میں کوئی بھی ملک یاپھر عالمی سطح پر کام کرنے والی امدادی ایجنسیاں آگے آنے سے کتراتی ہیں اور کوئی ہمارے دکھ درد میں شریک ہونے کو بہ مشکل ہی تیار ہوتا ہے ‘ یعنی بقول شاعر
توبھی سخن شناس تھا ‘ درد آشنا نہ تھا
تو نے بھی شعر سن کے فقط واہ واہ کی
اب دنیا ہماری حالت دیکھ کر ہمیں اس گڈریئے سے تشبیہ دیتی ہے جس نے دوبار شیر آیا ‘ شیر آیا کا شور مچا کر گائوں کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دیا تو تیسری مرتبہ اس کی حقیقی فریاد سن کر بھی مدد کو کوئی نہیں آیا’ ہم نے ماضی میں زلزلے اور سیلابوں میں ملنے والی امداد کے ساتھ مبینہ طور پر جو منفی رویہ اختیار کیا اب دنیا ہماری فریاد کو شیر آیا ‘ شیر آیا سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ‘ اس کی وجہ صرف یہی نہیں کہ ان حالات تک ہم نے خود کو پہنچانے میں خود ہی اہم کردار ادا کیا بلکہ کالم کے آغاز میں ہم نے سیاسی رہنمائوں کی پوائنٹ سکورنگ کی جوبات کی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی پر بجائے افسوس کا اظہار کرنے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کے لئے باہم اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے الٹا شہباز گل کے معاملے پر جو رویہ اختیار کرکے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اداروں پر شرمناک الزامات کے حوالے سے ڈرامے بازیاں کی جارہی ہیں انہیں دیکھ کر بیرونی دنیا میں کوئی پاگل ہی ہوگا جو ہمارے مصیبت زدہ عوام کے دکھ درد میں شمولیت اختیار کرنے اور ہماری مدد کرنے کے لئے آگے آئے گا۔ سیاسی قیادت کے کردار کو دیکھ کر کون یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے مصیبت زدہ عوام ہماری امداد کی راہ دیکھ رہے ہیں ‘ اور ہمیں سیاسی ڈرامہ بازیوں کوچھوڑ کر ان کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے وقتی طور پر ہی سہی سیاسی اختلافات کو تج کرسیلاب زدہ عوام کی ہر ممکن امداد کرنے کی سوچ اپنانی چاہئے ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بدقسمتی سے ہم نے ایک قوم ہونے کی راہ کھوٹی کر دی ہے ‘ آج معاشرہ تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے تاریخ کے اس موڑ پر آپہنچا ہے جہاں اردو محاورے کے مطابق آگے کنواں پیچھے کھائی ہے سب کچھ کھلی آنکھوں سے یکھتے ہوئے بھی ہمیں کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ‘ یا پھر ہم جان بوجھ کر ان خطرات سے آنکھیں بند کئے آگے بڑھ رہے ہیں ‘سیاسی خود غرضیوں کے چنگل میں پھنسے ہم یہ احساس نہیں کر پارہے ہیں کہ کسی بھی ممکنہ تباہی اور بربادی سے ہم اپنے آپ کو کیسے بچا سکتے ہیں ایک طرف مصیبت میں گرفتار عوام ہیں ‘ جو ہماری امداد کے منتظر ہیں اور دوسری جانب اقتدار کی جنگ میں سیاستدان ملک کے مستقبل کو دائو پرلگانے میں مصروف ہیں ‘ اور خود کو عبرت کا نشان بنانے پرتلے بیٹھے ہیں ‘ ہمیں احساس ہی نہیں کہ حالات پکار پکار کر ہمیں خبردار کر رہے ہیں ‘ اس پرانے شعر کی مانند جس میں ضرورت کے تحت ایک لفظ تبدیل کرنا ضروری سمجھا
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ”پاکستان” والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ضرورت بس اتنی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریباں میں جھانکے ‘ جہاں ہمیں ہمارا اصل چہرہ نظر آسکتا ہے ‘ اور اگر ہم اپنے ضمیر کے مطابق آگے بڑھنے پر آمادہ ہو سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!