تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کو امریکی سائفر کی تحقیقات سے مشروط کرتے ہوئے آمادگی کا اظہار کر دیا ہے، انہوں نے پہلی بار حکومت میں آنے کا کہہ کر غلطیوں کا اعتراف بھی کیا، عمران خان نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اب اقتدار ملا تو ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، چیئرمین تحریک انصاف کا موجودہ حالات میں قومی اسمبلی واپس جانے کا فیصلہ خوش آئند ہے، اس فیصلے سے سیاسی استحکام آئے گا، اور چوک چوراہوں کی بجائے ایوان کے اندر فیصلے ہو سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جس کے منفی اثرات بائیس کروڑ عوام برداشت کر رہے ہیں، انہی خطرات کے پیش نظر تین روز قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کو مشورہ دیا تھا کہ عوام نے آپ کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا ہ، تحریک انصاف پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے۔
چیف جسٹس نے سیلاب سے تباہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، ان حالات میں بیرون ممالک سے لوگ متاثرین کی مدد کیلئے آ رہے ہیں،آپ لوگ ملکی معیشت کو دیکھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کو اندازہ ہے کہ123نشستوں پہ ضمنی انتخابات کے اخراجات کیا ہوں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں جب کوئی جماعت الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومت بنا لیتی ہے تو طے شدہ ٹینیور کے مطابق اسے حکمرانی کا پورا حق اور ماحول میسر آتا ہے، اپوزیشن ایوان کے اندر رہ کر تنقید کرتی ہے، جبکہ حکومت کی تمام تر توجہ اہداف کے حصول اور ڈیلیور کرنے پر مرکوز ہوتی ہے، امریکہ، چین، کینیڈا حتیٰ کہ بھارت میں سیاسی استحکام موجود ہے، ان ممالک کو بڑے جمہوری ممالک قرار دیا جاتا ہے، ان کے مسائل ہماری نسبت کئی گنا زیادہ ہیں تاہم جمہوریت حکومتیں ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت کام کرتی ہیں۔ بھارت میںگزشتہ20سال کی جمہوری تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ من موہن سنگھ مسلسل دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے، اور معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد بی جے پی کے نریندر مودی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو دوسری بار بھی انہیں حق حکمرانی کا موقع دیا گیا، دیکھا جائے تو انہی20برسوں میں بھارت نے ترقی کی منازل طے کی ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں کہنے کی حد تک جمہوریت رہی لیکن کوئی بھی جماعت یکسوئی کے ساتھ حکمرانی نہیں کر سکی ہے، سیاسی دنگا فساد اور انتشار کی کیفیت رہی، پرویز مشرف کا مارشل لاء ختم ہوا تو2008ء میں انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی،جس کا زیادہ تر وقت آئین میں ترمیم اور کیسز میں گزر گیا۔2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی،ابتدائی تین برسوں میں ترقیاتی کام ہوا، انفراسٹرکچر، موٹر ویز کی تعمیر اور ترقیاتی کام کا جال بچھا دیاگیا، مگر سیاسی عدم استحکام اور جلسے جلوسوں کی وجہ سے اہداف کے حصول میں دشواری ہوئی،کیونکہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ کی حکومت کو روز اول سے تسلیم نہیں کیا تھا۔
2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف حکومت میں آ گئی تو ابتدائی تین برس اسے کام کرنے کا سازگار ماحول میسر آیا، مگر کارکردگی مایوس کن رہی،حکومت نے کورونا وبا کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کی، اور جب کورونا ختم ہو گیا تو سیاسی جماعتوں نے باہمی اشتراک سے تحریک انصاف کی حکومت ختم کر دی۔ یوں سیاستدانوں کا جو وقت عوامی مسائل کے حل میں لگنا چاہئے تھا وہ سیاسی لڑائیوں میں برباد ہوتا رہا، تحریک عدم اعتماد ضرور کامیاب ہوئی مگر حکومت کی تبدیلی کے عمل سے ملک معاشی طور پر پیچھے چلا گیا۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، کیونکہ تحریک انصاف اتحادی حکومت کو قبول کرنے سے انکاری ہے، عمران خان مسلسل نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، سیلاب کی تباہ کاری کے نتیجے میں توقع تھی کہ عمران خان ملک کے وسیع تر مفاد میں کچھ عرصہ تک خاموش ہو جائیں گے مگر وہ سیاسی سرگرمیاں ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اقتدار کے تمام شراکت دار کسی بات پر متفق ہو گئے ہیں۔”دیر آید درست آید” کے مصداق اس کی تحسین کی جانی چاہئے اور امید کی جانی چاہئے کہ اہل سیاست میں یہ اتفاق کم از کم سیلاب متاثرین کی آبادکاری تک برقرار رہے گا، کیونکہ پاکستان کو متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور شاہراؤں کے انفراسٹرکچر کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لئے پاکستان نے عالمی برادری سے رجوع کیا ہے، پاکستان نے بڑے سلیقے سے دنیا کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی دراصل موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے،جس کے اسباب و عوامل ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں، آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی مدد کریں، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی اپیل پہ توجہ دے رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا نے پاکستان کے مؤقف کو سنجیدہ لیا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو، تاکہ جب بیرونی فنڈنگ ہو تو اس کیلئے سازگار ماحول موجود ہو۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ مثبت اقدام ہے، تحریک انصاف کو بظاہر سیاسی دھچکہ لگے گا، ان پر تنقید بھی ہو گی مگر یہ فیصلہ ملک و قوم اور سیلاب متاثرین کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟