نظام میکدہ بگڑا ہوا ہے اس قدر ساقی

دور جدید نے ہر بات الٹ پلٹ کر رکھی ہے ، ماضی کا ورثہ نئی پود نے دفنا دیا ہے ، خواہشات کو اپنے تابع رکھنے کی بجائے خود سپر دی کر دی گئی ہے اقدار کی امانت کا ملیا میٹ کر رکھا ہے ، زمانے سے سیاست کے معنی یہ پڑھتے اور جانتے آئے ہیں کہ اس عربی لفظ کی اساس تین حروف س، ا س پر ہے یعنی ساس(دونو ں ”س”پرفتح ہے )جس کے معنی ہیں کہ کسی امو ر سے نمٹنے کے لیے عمد ہ ترین منصوبہ بندی مگر پاکستان میں فریب ترین معنی میں برتاجا تا ہے اس دور میں تو فریب ترین عروج حاصل ہے ، جس کی بدولت سیا سی اقدار ، تمدنی اخلا ص ، اورتہذیبی روایات دفینا پرتال ہو چکی ہیں ، ماضی خاص طو رپر تہذیبی واخلا قی اقدار کا دامن اس قدر مضبوط ہو اکرتا تھا کہ تلنگا سے بھی تلنگا دبھی اساس تہذیب سے عاری نہیں رہ سکتا تھا تہذیبی روایات صرف لکھنؤ تک محدود نہیں تھیں پور برصغیر کی اعلیٰ روایا ت کا طرئہ امتیا ز رہی ہیں ، گزشتہ ایک عشرہ پہلے تک سیا سی اقدار کا بول بالا تھا ، اب تو بے حسی کا یہ عالم دیکھنے کو ملتا ہے کہ اپنے اخلا قی عیب کو نجی زندگی کا حصہ قرار دے کر بات کو گول مول کر دیا جاتا ہے ، کیامدینہ ریا ست کا یہ اصول تھا ، رہنماء ملت کی زندگی کے معامالات نجی نہیںہو اکرتے ، ریا ست مدینہ کے مالک ووالی نے جب رہنمائی ملت کا آغاز کیا تھا تو ملت کو پکا ر کر سب سے پہلے اپنے کر دار کو پیش کر کے استفسار کیا تھا کہ ان کی زندگی کے پہلوؤں کے بارے میںقوم کی کیا رائے ہے ، جب قوم نے ان کو صادق امین قرار دیا تب حضور کریم ۖ نے دعوت دین کی طرف قدم بڑھایا ،چنانچہ یہ قانون آج بھی لاگو ہے کہ لیڈر کی اپنی کوئی ذاتی یا نجی زندگی نہیں ہو ا کرتی اس کا کر دار واخلاق قوم کے لیے ہے ، نئی نسل کو شاید معلو م نہ ہو ماضی میں بھی سیا ست دانوں کے مابین سیاسی نوک جھو نک اور مخالفت عروج میں یکتا ہواکرتی تھی ، مگر یہ سب تہذیب کے دائر ہ میں تھی ، کوئی مخالف لیڈر مخالف کی تضحیک اورگھٹیا پن نہیں کرتا تھا ، اور سیا ست کو خود غرضی نہیں بناتھا ، سچ ہے کہ اب سیاست عور بن بیٹھی ہے یہ وباء سمندر پاربھی جا پہنچی ہے ، اب لیا قت علی خان ، خواجہ ناظم الدین ، حسین شہید سہروردی ،مولانا مودودی ، نوابزادہ نصراللہ، مولانا ظفر انصاری ، مفتی محمو د ، سردار عبدالرب نشتر ، چودھری خلیق الزماں، عطاء اللہ مینگل ، اکبر بگٹی ، جسٹس رستم کیانی ، جسٹس کا رنیلس ،عبدالستار خان نیازی، ڈاکڑاشتیا ق حسین قریشی ، غوث بخش بزنجو ،قاضی حسین احمد ، جی ایم سید اور خان عبدالولی خان جیسی صاحب بصیر و صبور ہستیاں عنقاہوگئی ہیں یہ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنی ما د ی وروحانی زندگانیاں قوم وملت کی فلا ح وبہبود میں تج کر ڈالیں، خان عبدالولی خان کی اصول پرستی کا اندازہ اس سے کرلیں کہ انھو ں نے جمہوری ، سیا سی اور عوامی حقوق پر کبھی سودا بازی نہیں کی جب نواز شریف اور سابق صدر مملکت غلام اسحاق خان کے درمیان رسہ کشی ہوئی تو اس وقت غلام اسحاق خان جو قوم پر ستی کے مخالفین میں تھے انھو ں نے بھی ذاتی حرص کے لیے قوم پر ستی کا کا رڈ کھیلتے ہوئے ولی خان کو پیش کش کی کہ وہ ایک پنجابی (نواز شریف ) کے مقابلے میں ان کا ساتھ دیں کیو ں کہ وہ پختون ہیں ، جس کا جو اب ولی خان نے یہ دیا کہ یہا ں بات پختون یا پنجا بی کی نہیں ہے اصول کی ہے ولی خان کبھی اصول اور اخلا قی اقدار سے نہیںہٹے گا ، جنرل حمید گل نے ایک موقع پر بتایا کہ جب جنر ل ضیاء کے طیارے کے بعد عام انتخابات منعقد ہوگئے تو یہ سوچا گیا کہ صدر پاکستان کون ہو نا چاہیے چنا نچہ اس سلسلے میں کئی نا م آئے جن میں نوابزدہ نصراللہ خان ، خان عبدالولی خان اور مولانا فضل الرّحمان وغیر ہ کے نا م سامنے آئے چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ مطلوبہ افراد سے مبحث ومصاحبت(انٹر ویو )کر لیا جا ئے چنانچہ اس بارے میں مدعو کیا گیا ، خان عبدالولی خان نے اسی دعوت نامہ کی پشت پر یہ لکھ کر واپس لو ٹا دیا کہ وہ ایسی صدارت و عہد ے پر لعنت بھیجتے ہیں جس کے لیے ایک قومی و عوامی رہنماء کو سرکاری ملا زم کو انٹرویو دینا یا اس کے سامنے پیش ہو نا پڑے ، جنرل حمید گل کا یہ بھی کہنا تھا کہ موصوف جب بھی ملک سے باہر جا تے تو وہ کسی سیا سی تقریب میں شرکت نہیں کرتے نہ کوئی سیاسی بیان بازی کرتے ان کاکہنا تھاکہ وہ ملک سیاست ملک کے اندر چھوڑ آتے ہیں ، وہ ملک کی سیاست کوملک سے باہر اچھالنے کے روا دار نہیں ہیں ،موصوف خان کا کہنا تھا کہ بھٹوپاکستان کے نمائندے کی حثیت سے جا رہے ہیں چنانچہ ان کو اعتماد کا ووٹ اس لیے دیا ہے کہ بھارت یہ جا ن لے کہ بھٹو کسی سیا سی جماعت کی نہیں پاکستان کے عوام کی نمائندگی کررہے ہیں ، اسی طر ح سمندر پار پاکستانی جو آباد ہیں وہ پاکستان کی گو سرکاری طور پر نمائندگی نہیں کرتے لیکن وہ پاکستان کے تمدن ورثہ و تہذیب کے نمائندے ہیں ، جب بھی کوئی سرکا ری وعوامی شخصیت ملک سے باہر جا ئے تو اس کی ذاتی حثیت کوئی نہیں ہوتی وہ پاکستان کا سفیر ہوتا ہے ، سفیر کی عزت وتوقیر پاکستا ن کی عزت وتوقیر سے وابستہ ہوتی ہے ، مسجد نبوی میں شہباز شریف اور پھر لندن کے کیفے میں وزیر اطلاعات کے ساتھ جو سیاسی بیہودگی ہوئی وہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی ہے جس کی ہرکوئی درست مذمت کررہا ہے، سیا سی اختلا ف گالی گلوچ ، بدتہذیبی کا مظہر نہیں ، سیاسی آلودگی پھیلانے والے خود بھی دودھ دھلے نہیں ۔
بقول شاعر
نطام ِمیکدہ بِگڑا ہُو ا ہے َ اِس قدر ساقی
اُسی کو جَام مِلتا ہَے جسے پینا نہیں آتا ،

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''