آٹے کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ

اب شہریوں کو ٹرکوں پر رعایتی نرخ پر ملنے والا آٹا بھی تین سو روپے سے زائد مہنگے ریٹ کے ساتھ فروخت شہریوں کے لئیبڑی پریشان کن صورتحال ہے۔صرف یہی نہیں فلور ملزایسوسی ایشن نے یومیہ گندم کوٹہ 7ہزار ٹن نہ کرنے پر 20کلو آٹے کا تھیلہ تین ہزار روپے ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے جس کا تصور ہی محال اور سخت پریشان کن ہوگا دیگر صوبوں کے مقابلے میں پہلے ہی سے خیبر پختونخوا میں آٹا مہنگا فروخت ہوتاہے جس نئی صورتحال کاخدشہ ظاہر کیاگیا ہے اس کا تو تصور ہی محال ہے قبل ازیں پنجاب سے آٹا پرپابندی اور صوبائی حکومت کو مطعون کیا جاتا رہا ہے اس وقت دونوں صوبوں میں ایک ہی جماعت حکمران ہے اس کے باوجود آٹا اس قدر مہنگا کیوں ہے اور سرکاری آٹاکی قیمت میں بھی اچانک سو روپے کا اضافہ کیوں کیا گیا اس سوال کا جواب حکومت اور انتظامیہ کے پاس ہی ہوگا فلور ملز ایسوسی ایشن یومیہ گندم کوٹہ میں اضافہ کا بار بار مطالبہ کر رہی ہے حکومت اور فلور ملز مالکان کے درمیان چپقلش چلتی رہتی ہے اس کا بھی کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔ خیبر پختونخوا میں طلب اور رسد کا عدم توازن آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے جس کی ایک وجہ آٹا کی افغانستان سمگلنگ ہے جس کے باعث آٹاکی قیمت مستحکم نہیں ہوتی جب تک ان تمام عوامل کا سنجیدگی سے جائزہ لیکر اس کا مستقل حل نہیں نکالا جاتا آٹے کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں حکومت کواس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر بروقت توجہ دینے کی ضرورت ہے اس ضمن میں وقت ضائع کرنے سے صوبے میں آٹا بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جو حکومت اور عوام دونوں کے لئے سخت مشکلات کا باعث ہوگا۔
دبائو میں آنا مناسب نہ ہوگا
نویں جماعت میں فیل ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے محکمہ ابتدائی تعلیم کو پشاور تعلیمی بورڈ کے حالیہ نتائج پر نظر ثانی کی درخواست کردی گئی ہے جبکہ دوسری جانب اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کے فیل کرنے کے حوالے سے بحث بھی جاری ہے جس میں اساتذہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ معمولی سختی کرنے پر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ طلبہ رات کو پب جی گیم اور دن کو کلاسز میں سوتے ہیں یا گپ شپ لگاتے ہیں جس سے ان کے نتائج مثبت نہیں آئے ہیں۔ واضح رہے کہ 38 ہزار سے زائد طلبہ فیل ہوگئے ہیںاور نویں جماعت کا نتیجہ کافی غیرمتوقع آیا ہے امر واقع یہ ہے کہ صوبے کے تعلیمی بورڈوں کے درمیان بہتر نتائج دکھانے کی دوڑ اور نمبروں کی جومنڈی لگتی رہی ہے اور پاس ہونے کی شرح میں جس قدر غیر حقیقی اضافہ سامنے آتا رہا ہے اس کے منفی اثرات کے باعث طلبہ کا یقینی پاس ہونے یا زیادہ سے زیادہ کم نمبر آنے ہی کا ذہن بن گیا تھا اب اچانک اتنے بڑے پیمانے پر خراب نتائج پر احتجاج فطری امر ہے جو صورتحال سرکاری سکولوں ہی کی نہیں بعض نجی سکولوں کے طلبہ کی بھی بتائی جاتی ہے وہ خوفناک ہے رات بھر وقت ضائع کرکے کلاسوں سے غیرحاضری یا حاضر ہو کر بھی ذہنی طور پر غیر حاضری کوئی راز کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے صرف سکولوں میں نہیں کالجوں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے ایسے میں طالب علموں اور والدین دونوں کو ناکامی کا خوف دلانا اور ان کو اس امر کا احساس دلانا کہ پڑھائی اور محنت کے بغیر اب اچھے نمبر لینا تو درکنار پاس ہونا بھی ممکن نہیں رہا ایسا کرنا ضروری تھا نیز غیر حقیقت پسندانہ نمبر دینے کے بڑھتے رجحان پر بھی نظر ثانی کی ضرورت کا شدت سے احساس ہونے لگا تھاہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک احسن قدم ہے کہ طلبہ کوبلاوجہ کے نمبر دے کر پاس کرنے کی بجائے فیل کر دیا گیا ہے جس پر نظر ثانی کے لئے کسی دبائو میں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس امر کا اعلان کیا جانا چاہئے کہ آئندہ بورڈز میں مارکنگ مزید سخت ہو گی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا