قومی ہیروز کے بارے میں ہرزہ سرائی

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا ایک ویڈیو کلپ آج کل سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں موصوف قیام پاکستان کے حوالے سے مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی کاوشوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا تھا تو انہوں نے پاکستان کا خواب کیسے دیکھا؟ ساتھ ہی وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو انگریزوں کی کمپنی کا آلہ کار گردانتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ وہ کبھی مسلمانوں کا نمائندہ تھا ہی نہیں۔ مشہور فلسفی شاعر غنی خان کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ ایک بار اسمبلی کے فلور پر محمدعلی تقریر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں یہاں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت میں موجود ہوں۔ اسی پر غنی خان اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ مجھے نہیں پتہ میں یہاں کس حیثیت میں موجود ہوں۔ دوسرے لفظوں میں غنی خان کا مطلب یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کی نمائندگی آپ کررہے ہیں تو پھر میں کس کی نمائندگی کررہا ہوں؟ ایمل ولی خان کی تقریر پر داد تحسین پیش کرنے والوں کی خدمت میں تاریخ کے چند حوالے دینے کی جسارت کرتا ہوں۔
مورخین جب تاریخ مرتب کرتے ہیں تو تین نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کرتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر وہ ہے جس میں حالات وواقعات جیسے بھے گزرے ہیں، ان کو من وعن بالکل اسی انداز میں دیکھا اور پرکھا جائے۔ دوسرا نقطہ نظر اصولی اورمقصدی ہے جس میں خالص انسانی فلاح کو بنیاد بناکر نیک و بد کا ایک بے لاگ معیار سامنے رکھا جاتا ہے اور پھر نسل انسانی اور اسکے مختلف اجزا کے کارناموں کو جانچ کر بے لاگ رائے قائم کیا جاتا ہے۔ تیسرا نقطہ نظر قوم پرستانہ مطالعہ کا ہے جس میں واقعات کو اس خاص شخصیت، نسل، قوم یا ملک کے جذبے سے دیکھا جاتا ہے جس سے ہمارا تعلق ہو۔ یہ تیسرا نقطہ نظر دراصل وہ ہے جس میں تاریخ کے طالب علموں کے لئے بڑی کشش ہوتی ہے۔ جب ایک طالب علم اپنی نسل یا قوم ہی کے نقطہ نظر سے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو اس میں ایک طرف ان کو ناز ونعم کے لئے چند بت مل جاتے ہیں تو دوسری طرف نفرت وعداوت کے لئے چند اہداف بھی مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں اکثر جھوٹ اسی مطالعے کی بدولت پھیلتے ہیں۔ اکثر ظلم، ناانصافیاں اور قومی و نسلی عداوتیں دنیا میں اسی کی بدولت برپا ہوئی ہیں۔ اکثر بروں کو اچھا اور اچھوں کو لعن طعن کا ہدف اسی مطالعے کی بدولت ٹھہرایا گیا ہے۔ ایمل ولی خان کا علامہ اقبال کو ہدف تنقید بنانے کا ایک مقصد شاید یہی ہوسکتا ہے کہ مفکر پاکستان نے بڑے واشگاف الفاط میں قوم پرستی اوروطن پرستی کی تنگ نظر سیاست کو مذہب کا کفن قراردے کر ملت اسلامیہ کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
موصوف کی خدمت میں صرف اتنی سی گزارش ہے کہ چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق اپنی سیاسی قد اور ذہنی سطح کے مطابق سیاست کریں ۔بین الاقوامی شہرت کے حامل قومی ہیروز کے کردار اور شخصیت پر سیاست کے ایک طفل مکتب کے لئے لب کشائی کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ رہا یہ سوال کہ قائد اعظم کس حیثیت میں بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی نمائندگی کررہے تھے تو بجائے اس کے کہ اس سوال کے جواب میں دلائل و براہین کے انبار لگادئے جائیں میں یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ موصوف کس حیثیت میں ساڑھے تین کروڑ والی آبادی کے صوبہ میں پختونوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ آپ فخر افغان خان باچا خان کے بیٹے کے بیٹے کے بیٹے ہیں؟ بلا شبہ باچا خان ایک عظیم انسان اور مانے ہوئے سیاستدان تھے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اسی میراث کو لے کر اس کے پوتے پڑ پوتے بھی انہی کے پیروکاروں پر حکمرانی کا حق محفوظ رکھتے ہوں ۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کے ایک نووارد موروثی سیاست دان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بیسویں صدی کے ایک مجدد، فلسفی اور مفکر، شاعر اور سب سے بڑھ کر جذبہ ایمانی سے سرشار ایک درد دل رکھنے والے سچے مومن کی شخصیت پر بلا کسی معقول جواز کے انگلی اٹھا لیں۔ علامہ اقبال بلاشبہ اس صدی کا ایک عظیم لیڈر تھا جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مردہ روح میں اپنی شاعری کے ذریعے جذبہ حریت کو ابھارا جس کے نتیجے میں مملکت خداداد کی کھلی فضائوں میں آج ہم سانس لیتے ہیں۔ بلاشبہ یہی قائد اعظم کا وہ پاکستان ہے جس کے سیاسی افق پر آج ایمل ولی خان اٹھ کر اپنے دادا پر دادا کے کارناموں کو دہرا دہرا کر عوام پر حکمرانی کا حق جتاتے ہیں۔ آج اگر آپ میں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا حوصلہ نہ ہو تو نہ سہی لیکن کم از کم ان کو یاد کرتے ہوئے برے الفاظ کے چنائو سے ان کے احسان مندوں کا دل تو مت توڑیں۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال