”لڑادے تنویر کو شہبازسے”

علامہ اقبال نے تو ممولے کو شہباز سے لڑانے کی بات کی تھی مگر یہاں لڑادے تنویر کو شہباز سے کا منظر اس وقت اُبھرا جب میر پور میں واپڈا کی ایک تقریب میں دووزرائے اعظم شہباز شریف اورسردار تنویر الیاس خان کے درمیان ایک تلخ او رناخوش گوار صورت حال پیدا ہوئی۔یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب شہباز شریف امریکی سفیر مسٹر ڈونلڈ بلوم کے پہلو میں کھڑے واپڈا کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔تقریر کے دوران ہی وزیر اعظم آزادکشمیر نے کھڑے ہوکر بولنا شروع کیا وہ آزادکشمیر کے مسائل اور حصے کی بات کرنا چاہتے تھے مگر شہباز شریف نے انہیں ٹوکتے ہوئے بیٹھنے خاموش ہوجانے اور بعد میں اس موضوع پر بات کرنے کا کہا۔سردار تنویر الیاس خان کی باتیں تو پوری طرح ریکارڈ نہ ہوسکیں مگر شہباز شریف کا ان کو کبھی پی ایم تو کبھی پریزیڈنٹ صاحب بیٹھ جائیں کہنا اور ان کے چہرے کے تاثر ات سب ریکارڈ ہوگئے۔بعدمیں سردار تنویر الیاس خان نے ایک تند وتیز پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ شہباز شریف کوعزت واحترام کے ساتھ مخاطب کرکے مسائل پہنچانا چاہتا تھا مگر انہوں نے میری بات نہیں سنی۔سردار تنویر الیاس خان نے الزام عائد کیا کہ شہباز شریف کے گارڈز نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی ۔آزادکشمیر کی سرزمین پر آزادکشمیر کے وزیر اعظم کے ساتھ آزادکشمیر کی سرزمین پریوں بدسلوکی کوئی اچھی روایت نہیں۔ اول تو اس تقریب میں تنویر الیاس کو مدعو نہیں کیا گیااگر وہ چلے گئے تھے تو تقریر کا موقع دیا جانا چاہئے تھا ۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم آزادکشمیر نے درست بات کے لئے صحیح جگہ کا انتخاب نہیں کیا ۔بات کچھ بھی ہو مگر یہ اسلام آباد میں جاری سیاسی رسہ کشی کا ہی ایک پہلو ہے ۔اس میں مظفر آباد اور اسلام آباد کے انتظامی تعلقات کی دیرینہ کجی اور عدم توازن کا بھی کسی حد تک دخل ہو سکتا ہے۔آزادکشمیر کی صف اول کے تمام سیاست دان مین سٹریم سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔یوں جب بھی اسلام آباد میں کشیدگی اور سیاسی آلودگی کی گرد اُڑتی ہے تو آزادکشمیر کے سیاست دانوں کی آنکھوں کے حصے میں ریت کے چند ذرات آتے ہیں ۔ماضی میں وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر اور چوہدری مجید کے درمیان ایک ٹی وی شو میں تلخی بڑھی اور برجیس طاہر نے چوہدری مجید کو پہاڑی بیل کہہ دیا ۔اس طعن اور تشنیع کا تعلق اس وقت کی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی لڑائی سے تھا ۔بعد میں راجہ فاروق حیدر خان نے بطور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سخت زبان استعمال کی تو اس کا جواب فیاض الحسن چوہان نے کرختگی سے دیا اور اب سردار تنویر الیاس کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اسی کا تسلسل ہے۔پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہ کسی اصول پر کھڑا نہیں بلکہ اس کے مرضی اور پسند کے اصول ہیں ۔اس کی اخلاقیات اور خوب وناخوب کے باٹ بھی الگ الگ ہیں ۔جو بات آج کسی ایک فریق کو اخلاقیات کی گراوٹ اور بدترین بے اصولی لگتی ہے وہ کل کسی موقع ومحل پر عین تقاضائے وقت دکھائی دیتی ہے۔سردار تنویر الیاس خان مین سٹریم جماعت کا حصہ ہیں اور اسلام آباد کے رواں سیاسی طوفان اور بحران میں گجرات کے چوہدریوں کی طرح وہ بھی مخمصے میں رہے ہوں گے مگر انہوں نے اپنا مخمصہ دور کرلیا اور اب وہ سیاسی تقسیم میں عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔وہ سیاست میں پنڈی بوائے کے طور پر آئے مگر چلتے چلتے اب وہ بنی گالہ کے کھلاڑی بن چکے ہیں ۔یوں وہ ایک واضح سیاسی لائن لے چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے گردگھیرا ڈالنے والے خرم روکھڑی سمیت کئی پراسرا ر کردار رفتہ رفتہ غائب ہونے لگے ہیں یا خود تنویر الیاس یہ بوجھ اُتارتے جا رہے ہیں ۔ایسا ہے تو وہ اب اپنی نئی سیاسی شناخت اور صورت گری چاہتے ہیں گویاکہ وہ سیاست میں اب اپنی بنیادوں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔اسلام آباد میںان کا کاروباری مرکز سینٹورس مال بھی پراسرا ر کاروائیوں کی زد میں ہے ۔کچھ عرصہ پہلے آتش زدگی کا واقعہ ہوا تو اب میرپور کے ناخوش گوار واقعے کے دوسرے ہی روز یہ کاروباری مرکزخاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا ۔میرپور واقعے کے بعد سردار تنویر الیاس ایک اور واضح لائن لیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی اور سردار تنویر الیاس کی کشتی سے کئی اور پراسرار چہرے اور کردار اُترتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ ایک کاروباری پس منظر کے حامل شخص سردار تنویر الیاس کا لکیر کے ایک مخصوص اور واضح جانب کھڑا ہونا اسلام آباد کی آنے والی رُتوں کا پتا دیتا ہے جس کے مطابق” مائنس عمران کی بجائے مائنس عمران سوچ ہی مائنس ہوتی نظر آتی ہے سردار تنویر الیاس آزادکشمیر کی سیاست میں ایک نئی انٹری ہیں اور اب لگتا ہے کہ وہ سیاست میں طویل اننگز کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس سفر میں انہیں بلدیاتی نمائندوں کی صورت میں ایک نئی کھیپ بھی میسر آگئی ہے ۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال