آج فیصلہ کیجئے

ہم صرف امداد کی آس میں زندہ دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان کو سعودی عرب سے اربوںڈالر ملنے کا امکان ہے ‘ کہیں سے خبر سنائی دیتی ہے ایشائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے لئے 55 کروڑ44لاکھ ڈالر کی منظوری دے دی۔ اس خبر کی تفصیل بتاتی ہے کہ اس میں سے کتنی امداد اور کتنا قرض ہے ۔ کہیں سے یہ بتایا نہیں جاتا کہ عالمی مالیاتی ادارے جب امداد بھی دیتے ہیں تو وہ بھی آسان شرائط کا قرض ہی ہوا کرتا ہے ۔ کسی جانب یہ بحث چل رہی ہے کہ آخر آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کیوں نہیں دیا ‘ اور اس قرض کے نہ ملنے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ اس قرض کے ساتھ اور کتنے قرض مشروط تھے جو پاکستان کو مل جاتے تو شاید پاکستان کی قسمت ہی بدل جاتی ۔ آئی ایم ایف کا قرض تو پہلے سے منظور شدہ تھا یہ تو محض ایک قسط تھی ۔ مسلسل قرض ‘ قرض ‘ قرض کی صدائیں اس ملک کے طول و عرض سے برآمد ہوتی ہیں اور اس سے زیادہ کی خواہش اور کوشش کسی نہ کبھی کرنے کی سکت ہی خود میں اس قوم میں پیدا ہونے نہیں دی۔
عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کے دور کی کتنی ہی باتیں ایسی ہیں جن کے حوالے سے ہم اپنی اپنی وفاداریوں اور نقطہ نظر کے بھنور میں الجھے ہوئے ہیں اس دور حکومت کے مسلسل مسائل نے ہم میں سے کئی لوگوں کو تحریک انصاف سے ہی متنفر کر دیا ۔ وہی لوگ جو انتخابات میں اپنی پرانی وفاداریوں کوبھول کریا اپنی لاتعلقی کی دھند کو ‘اپنے ذہنوں سے صاف کرکے ‘ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ دینے آئے تھے ۔ ان میں سے کئی لوگ اب عمران خان اور تحریک انصاف سے تقریباً بیزار ہوچکے ہیں کیونکہ جس تواترسے تحریک انصاف اور عمران خان نے اس ملک کے لوگوں کو یہ بتایا کہ دو خاندانوں نے اس ملک پر تیس سال حکومت کی اور اسے مسلسل لوٹا اسی مستقل اور متواتر نا اہلی کا مظاہرہ حکومت میں رہتے ہوئے کیا۔ اس حکومت کے آغاز سے ہی تجزیہ نگاروں نے اس بات کی نشاندہی کا آغاز کر دیا تھا کہ تحریک انصاف کے لیڈران ٹیم بنانے سے قاصر ہیں ‘ وہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کے کردار کو مسلسل نبھا رہے تھے ۔ مسلسل غلط فیصلے کئے چلے جا رہے تھے اور درست فیصلوں کی مناسب تشہیر نہ ہو رہی تھی ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کسی بھی مناسب لائحہ عمل کا نہ ہونا مسلسل دکھائی دیتا رہا ‘ اور اس پر تنقید بھی ہوتی رہی ۔ عمران خان کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی ضد بھی ہے سو معاملات میں بگاڑ نے بالآخر مسلم لیگ(ن) کو دوبارہ ا قتدار کے لئے قابل قبول کردیا اور موجودہ صورتحال ہمارے سامنے ہے ‘ اب ملک میں کسی قسم کی کوئی نئی پالیسی بظاہر دکھائی نہیں دیتی ۔ مسلسل قرضوں کی بات ہوتی ہے’ ڈیفالٹ کی خواہش اور خوف دونوں ہی فضا میں موجود ہیں۔ مسلم لیگ نون کو ایک مخصوص طرح کی حکومت کرنی آتی ہے ۔ معیشت کی بقاء اور بڑھوتری کے لئے ان کے پاس کوئی جادونہیں وہی کئی سالوں کے استعمال شدہ نسخے ہیں جوانہیں آج بھی درست معلوم ہوتے ہیں اور چونکہ اس ملک میں بھی لوگوں کو معیشت اور معاشیات کا بہت زیادہ علم نہیں اس لئے قرض کی بات بھی درست معلوم ہوتی ہے اور ایسے حل بھی مناسب لگتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو قرضوں میں کوئی برائی نہیں ‘ برائی ان کے نامناسب استعمال میں ہوا کرتی ہے ‘ لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی اور ان قرضوں کو مکمل استعمال نہ کرسکنے کی اہلیت کا نہ ہونا اصل مسئلہ ہے ورنہ اسی دنیا میں کتنے ہی ملک ایسے ہیں جہاں قرضے لئے گئے ‘ انہیں بین الاقوامی معیشتی اداروں کے پروگرام استعمال میں لائے گئے ‘ محنت اور یکسوئی سے اس قرضے سے مکمل فائدہ حاصل کیا گیا۔ 1970ء میں کوریا انتہائی زبوں حالی کا شکار تھا۔ لوگوں کی غربت کا عالم یہ تھا کہ وہ درختوں کی جڑوں کو ابال کر کھانے پر مجبور تھے ۔ جنوبی کوریا نے قرضے لئے اور ان کا درست استعمال کیا۔ محنت اس قوم کی عادت ہے ‘ سو انہوں نے اپنی محنت سے اپنی تقدیر بدل لی۔ان کے خلاف نہ جاپان نے کوئی سازش کی ‘ نہ امریکہ کسی سازش میں ملوث ہوا ‘ آج ان کا عالم یہ ہے کہ پوری دنیا کے آئل ٹینکر بحری جہاز کوریا میں بنتے ہیں۔ کوریا اپنی صنعت کا تعین کرتا ہے کہ اب اس نے کس جانب دھیان دینا ہے اور کونسی تجارت دوسرے ملکوں کے لئے چھوڑ دینی ہے۔1970ء کی ہی دہائی میں جنوبی کوریا نے اپنے لئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ لوگوں میں اہلیت پیدا کرنے کی جانب خصوصی توجہ دی جائے گی۔ آج جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہو رہا ہے ۔
پاکستان کے مسائل کا حل اب سیاستدانوں کے پاس نہیں۔ اب یہ فیصلہ اس ملک کے عوام کو کرنا ہوگا کہ وہ جس سیاسی جماعت کو بھی پسند کرتے ہوں جس مکتبہ فکر سے بھی تعلق رکھیں یہ ملک ہر ایک پسند ‘ ہر ایک تعصب سے کہیں زیادہ اہم ہے اور وہ اس ملک کے لئے کام کریں گے ۔ سڑکوں کے چوراہوں پر بھیک مانگنے والوں سے لے کر دفتروں میں بیٹھے بیورو کریٹس تک ہر کوئی یہ فیصلہ کرے اور پھر سرجھکا کر اس ملک کے لئے کام کریں۔ اس کا کسی جماعت ‘ کسی خیال ‘ کسی پسند سے کوئی تعلق نہ ہو ‘ وہ صرف اس ملک کے لئے صدق دل سے کام کریں ۔ اپنی سمت درست بھی رکھیں اور اپنی سوچ کو کسی ایک خیال کے ساتھ باندھ نہ دیں۔ اپنے خیال کو وسعت دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں’ اور صرف اپنا کام کریں ‘ ایک دوسرے پر توجہ دینا اور بس خود کو ہی عقل کل سمجھنے کا خیال سے باہر نکل کر آج اپنی زندگی کے دس سال اس ملک کے لئے لکھ دیں اور پھر دیکھیں کہ اس ملک میں کیسے سنہرے دور کا آغاز ہوتا ہے ‘ اس ملک کو ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کے بس یہی دس سال چاہئیں ‘ کسی اور کے حصے کی سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں ‘ بس اپنے حصے کا کام کیجئے اور اس ملک کو دس سال دینے کا فیصلہ کیجئے ۔ آج ہمارا یہ فیصلہ ہمارے لئے ایک بہترین کل کی ضمانت دے گا ۔ یہ فیصلہ آج کرنے کی ضرورت ہے اور پھر جب ہم سر اٹھائیں تو دس سال بعد ہی سر اٹھائیں تب جب ہم سر اٹھائیں گے تو یہ ملک سنہرا ہو چکا ہوگا۔ آیئے آج عہد کرلیں تو کل کی آسانی ہماری منتظر ہوگی۔

مزید پڑھیں:  پاکستان ہاکی ،غیر معمولی واپسی