بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات

کچھ کرمفرمائوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ملکی سیاسی صورتحال کو چھوڑکریہ جوبعض اوقات مقامی مسائل میں خود کو الجھادیتے ہیں تو یہ اچھا نہیں کرتے اور ہمیں خود کو اتنی محدود سطح پر اتارنے سے گریز کرنا چاہئے ‘ ان کی بات بالکل درست ہے مگرکیاکیاجائے کہ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے مسائل سے صرف نظر کرنا بھی تو ممکن نہیں ہے’ اپنا گزشتہ کالم ‘ جواخبار کے پولیٹیکل ایڈیشن کے صفحہ اول پر شائع ہوا ‘ ان دوستوں کے اعتراضات کا جواب ہی تھا ‘ لیکن آج جب ہم اخبارکی سرخیوں پرنگاہ ڈالتے ہیں توپھرخود کو مجبور پاتے ہیں کہ عوام کے مسائل سے توجہ کیسے ہٹائی جاسکتی ہے ‘ اب یہی دیکھ لیں کہ سرکار والا مدار نے ابھی حال ہی میں ایک پالیسی کے تحت ملک بھر میں سی این جی سٹیشنز کوبند کرکے گھریلوصارفین کی فراہمی یقینی بنانے کافیصلہ کیا ہے اس کے خلاف پشاور میں ٹرانسپورٹرز اور رکشہ ڈرائیوروں کی جانب سے ( اس کالم کے لکھنے سمے) ہڑتال کا اعلان سامنے آیا ہے ‘ اور جب یہ کالم آپ کی نظرسے گزرے گا تو مجوزہ ہڑتال پر ممکنہ طورپر عملدرآمد بھی ہو چکا ہو گا۔ اس صورتحال میں اگرچہ ہم خود گومگو کی کیفیت سے دو چار ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ سرکارکی حمایت کی جائے یا پھر ٹرانسپورٹرز اور رکشہ ڈرائیوروں کی ‘ کیونکہ بحیثیت شہری گزشتہ کچھ سالوں سے دوسرے عام شہریوں کی طرح ہم بھی گیس کی” عدم یا کنٹرولڈ” دستیابی کے مسائل سے دو چار ہیں ‘ اس کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم سرکاری فیصلے پرخوش ہوں کیونکہ گھریلوصارفین جس عذاب سے دوچارہیں اور ضروت کے مطابق ان کوگیس ملتی ہی نہیں اگر سی این جی سیکٹر کوشدید سردی کے دوران ایک آدھ مہینہ بند کرکے چولہے جلانے کے لئے گیس فراہم کر دی جائے تواس سے کم ازکم گھروں کے چولہے توآباد ہو جائیں گے اور گھروں میں کھانے پکانے کے مسائل کا خاتمہ ہو جائے’ اگرچہ اس سے ٹرانسپورٹ کاپہیہ جام تونہیں مگرسست رفتار ضرور ہوجائے گا’ بے روزگاری بڑھنے کے امکانات کے خدشات پیدا ہو جائیں گے’ مگر اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک اور پہلو پربھی بات کرنا ضروری ہے یعنی سرکار والا مدار نے جو فیصلہ کیا ہے اس پرایک مصرعہ درست طور پرمنطبق ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ
مگرفرق اس سے توپڑتا نہیں
وہ یوں کہ جب سے اس نئی پالیسی کااطلاق ہوا ہے اس کی دودھاری تلوار سے اب دونوں سیکٹر مشکل صورتحال سے دو چار ہیں ‘ یعنی ٹرانسپورٹ کاشعبہ توخیرشور مچا ہی رہا ہے جبکہ گھریلوصارفین اور دیگر متعلقہ لوگ یعنی ہوٹل ‘ وغیرہ کے چولہے بھی تادم تحریرحکومتی اعلان کے مطابق کسی سہولت کے خوگر نہیں ثابت ہو رہے ہیں ‘ اور کم از کم بطور گھریلوصارفین ہم جب اپنے ماحول میں ادھرادھر نظردوڑاتے ہیں تو ہمارا ذہن خوگر حمدسے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کی آماجگاہ بن جاتا ہے ‘ یعنی سی این جی سیکٹرپرتو قدغنیں لگا دی گئی ہیں کہ گھریلو صارفین کوآسانیاں فراہم کی جائیں لیکن گھریلوصارفین ابھی تک ان آسانیوں کی راہ دیکھ رہے ہیں کہ اب انہیں بلا تعطل گیس فراہم کرکے ان کو ”موگیمبو” بنا کر خوش کردیا جائے گا مگراے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘ اوربقول مرزا غالب
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہربات
عبارت کیا’ اشارت کیا ‘ ادا کیا!
صورتحال بالکل اس شعرکی مانند ہے کہ نہ خدا ہی ملا ‘ نہ وصال صنم ‘ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے مقصد کہنے کا یہ ہے کہ خدا جانے وہ گیس جو سی این جی سیکٹرسے لے کر گھریلو صارفین کو تسلسل کے ساتھ دینی تھی جس سے ان کے دلدر دور ہو سکتے ‘ وہ ٹرانسپورٹرز سے تولے لی گئی مگر گھروں میں اب تک نہیں پہنچ پارہی ہے ‘ اور گھروں میںاب بھی وہی کیفیت ہے جو پہلے تھی ‘ یعنی صبح تقریباً چھ بجے سے نوبجے ‘ اس کے بعد گیارہ بجے دن سے دوبجے دوپہر ‘ ازاں بعد ساڑھے پانچ چھ بجے شام سے رات نوبجے تک اور پھرتوجہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ‘ یہ صورتحال پشاور کے ایک نام نہاد ”پوش” علاقے گل بہار کی ہے ‘ شہر کے دیگر علاقوں کے صارفی اپنے ”مقامی و محلاتی ” اوقات کے مطابق ہم سے اختلاف کرسکتے ہیں اگران کے”ٹائم لائن” پرشیڈول اس سے سے مختلف ہو ‘ مگرہم توسرکاری اعلان کی حقیقت واضح کر رہے ہیں اور یہی گزارش کر رہے ہیں کہ اگر یہی کرنا تھا یعنی گھریلو صارفین کو وہ آسانیاں اب بھی مہیا نہیں کی جارہی ہیں اور معاملہ سرکاری اعلان سے پہلے والا ہی ہے توبے چارے سی این جی سیکٹر کو عذاب سے دوچار کرنے کی تک کیا ہے؟ بقول جون ایلیائ
خوب ہے شوق کا یہ پہلوبھی
میں بھی برباد ہوگیا ‘ توبھی
اب ہم اس حوالے سے ہمیشہ جس لالی پاپ یاٹرک کی لال بتی کاذکر کرتے ہیں جوسوئی گیس والوں نے گزشتہ برس وزیراعلیٰ محمود خان کو ”تین دن” کے نام پرتھما کر خوش کردیا تھا کہ زنگ آلود اورچھوٹی قطر کے پائپ کو تبدیل کرکے پشاورمیں گیس پریشر کودرست کر دیا جائے گا ‘ یا ابھی کچھ ہی دن پہلے گورنرغلام علی کوبھی وہی پرانی کہانی سنا کر مطمئن کردیاتھا اور بقول مرزامحمود سرحدی مرحوم(پرانی غزل)
خیال وفکر کی محفل سجارہا ہوں میں
ہنسا رہا ہوں کسی کو رلا رہا ہوں میں
طرح طرح کے کرشمے دکھارہا ہوں میں
سنوسنو کہ قیامت ا ٹھا رہا ہوں میں
وہی پرانی غزل پھرسنا رہا ہوں میں
بلکہ ہم تو مرکزی سرکار کے اس فیصلے پر”گل افشانی گفتار” کی جرأت رندانہ کی کوشش کر رہے ہیں اور ٹرانسپورٹرز کی شکایت پریہی عرض کر رہے ہیں کہ اگردیکھا جائے تو ان کی شکایت زیادہ موثر نہیں ہے اس لئے کہ جب سے ٹرانسپورٹ (بسوں ‘ ویگنوں ‘ رکشہ) وغیرہ وغیرہ میں دوگنی سہولت کاآغاز ہوا ہے تویہ لوگ پٹرول کی بجائے گیس بھروا کرسواریوں سے پٹرول کے حساب سے کرایہ وصول کرکے ان کا بھرپور استحصال کرتے ہیں ‘ تاہم پھر بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں گیس سے محروم رکھا جائے ‘ خصوصاً اس صوبے کوجہاں سے اب بھی ضرورت سے زیادہ گیس پیدا ہوتی ہے ‘ مزید ملنے کی خبریں بھی آچکی ہیں اورآئین کاتقاضا کیا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں ‘ مگرزبردستی سی این جی سیکٹر کو روک لگا کر بھی اگرگھریلو صارفین کو اسی”پرانی غزل” پرٹرخایا جا رہا ہے تو پھر شکایت توجائز ہی ہے ناں۔
توبھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے