تاجروں کی دُہائی

بدقسمتی سے ملک کے معاشی حالات دگر گوں تھے ہی رہی سہی کسر دہشت گردی اور خوف و ہراس کی فضا سے پوری ہو گئی ہے خیبر پختونخوا کی کاروباری برادری کوبھتہ خوروں کا بھی سامنا ہے بجلی و گیس کی عدم دستیابی اور اب بطور خاص زرمبادلہ کی وجہ سے کاروباری طبقے کو جس دبائو و مشکلات کا سامنا ہے اس پر کاروباری برادری میں بے چینی کی لہر دوڑ جانا فطری امر ہے ۔ تاجر برادری کو شکایت ہے کہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں کاروبار تجارت ایکسپورٹ امپورٹ میں کمی اور کمرشل بینکوں کی جانب سے لیٹرآف کریڈٹ نہ کھولنے کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ پٹرولیم مصنوعات بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ سمیت ڈالر کی اونچی اڑان اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 17 فیصد اضافہ کے ساتھ بینکوں کے مارجن ملا کر شرح سود میں 20 فیصد تک اضافہ نے بھی رہی سہی پوری کردی ہے ۔ان کا مطالبہ ہے کہ ملک کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے والی معاشی پالیسیوں کے نفاذ سے گریز کیا جائے اور بزنس فرینڈلی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ملک کی معیشت کو استحکام اور بحال کیا جاسکے بصورت دیگر وہ دن دور نہیں ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں پاکستان معاشی طور پر ڈیفالٹ کرجائے گا جس کی ساری ذمہ داری موجودہ مخلوط حکومت پر عائد ہوگی۔معروضی حالات کے تناظرمیں تاجروں کی جانب سے خدشات کا اظہاراور مطالبات بے جا نہیں بلکہ قابل توجہ ہیں مگرمشکل امر یہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنے وسائل اور امکانات نہیں کہ وہ تاجروں کوان مشکلات سے نکالنے کے لئے بروئے کارلائے ۔ حکومت خود معاشی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اب امن و امان کی صورتحال حکومت اور تاجروں دونوں کے لئے بڑا چیلنج بن رہی ہے اندریں حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور تاجر برادری باہم مشاورت اور تعاون کے ذریعے صورتحال سے نکلنے کی سعی کریں تو مناسب ہو گا۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اور تاجر دونوں ایک دوسرے کی مشکلات سمجھنے کی کوشش کریں گے اور باہمی مشاورت سے اس مسئلے سے نکلنے کی سعی کی جائے گی۔جاری حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ وقت اور صورت حال کی نزاکت کا جانبین کو ادراک ہونا چاہئے اور اس کے مطابق مطالبات اور ان کو حل کرنے کے حقیقت پسندانہ اقدامات کی توقع رکھی جائے تو مناسب ہو گا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ