”سونے” والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی

موضوع ہمارا تو کچھ اور ہے مگر ازراہ تفنن یادل پشوری کرنے کے لئے ایک تازہ خبر پربھی لگے ہاتھوں تبصرہ ہو جائے ‘ نہ صرف پرنٹ میڈیا پرتصویریں سامنے آئی ہیں بلکہ سوشل میڈیا پربھی اس حوالے سے ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک نگران وزیر نگران کابینہ کی گورنر کے ساتھ پہلی پریس کانفرنس میں نیند کے غلبے میں سوتے جاگتے پائے گئے ‘ اس پراحمد فراز کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے ان کے ایک شعرمیں تحریف کی اجازت چاہتے ہیں کہ
اس کی آنکھوں کوکبھی غور سے دیکھا ہے فرار
”سونے” والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
اس کیفیت کی اثر پذیری کوئی پہلی بار نہیں ہو رہی ہے بلکہ ماضی میں اوربھی کئی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں ‘ جن میں خصوصاً پیپلزپارٹی کے ایک سینئر نوید قمر پارلیمنٹ کے اجلاسوںمیںاکثر و بیشتراپنی نشست پر سوتے جاگتے پائے جاتے تھے ‘ اس سے بھی بہت پہلے ایوبی آمریت کے دور میں مغربی پاکستان اسمبلی کے اندر کچھ ایسے ممبران بھی پائے جاتے تھے جن کے بارے میں ہمارے مرحوم کرم فرما سینئر صحافی سید حسن گیلانی کی زبانی سنا تھا کہ پنجاب کے کچھ جاگیردار ممبران اسمبلی ہروقت افیون کی پینک(پی نک) میں ہوا کرتے تھے اوردوران اجلاس ان پرنشے کا اس قدرغلبہ رہتا کہ جب کسی بل پررائے شماری ہوتی تو ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کے دیگر ساتھی ان کا ہاتھ بلند کرتے ہوئے”پاس” کہتے تو وہ بھی چونک کرپاس ‘ پاس کے الفاظ دہراتے پائے جاتے ‘ اس پریہ تو کہا جاسکتا ہے کہ
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
ان کی آنکھوں کی نیم بازی سے
اگرچہ تب بھی کم ازکم میر تقی میر کے اندازیہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ
میران نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی”افیون” کی سی ہے
کیونکہ ایک تو افیون میں”مستی” کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سنا اور پھر میر کے شعر میں افیون کاکوئی ذکر نہیں بلکہ بقول شخصے”ہائے کم بخت تونے پی ہی نہیں” والے دخت ازکا ذکر ہے ‘ اورپھروہاں افیون کا لفظ لگانے سے قافیہ کے”تنگ” ہونے کاخدشہ ہے ۔خیرجانے دیں ‘ یہ جو تازہ واقعہ رونما ہواہے اس پر کسی بھی طور ان کیفیات کا اطلاق نہیں ہو سکتا ‘ بس ویسے ہی بندہ بشر ہے ‘ اورجب کام کاغلبہ ہو توآدمی کے تھکاوٹ اوربے خوابی کا شکار ہو جانے کوخارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ کیونکہ ان دنوں سیاست کی گچھی جس طرح محبوب کے زلفوں کی طرح الجھی بلکہ الجھائی گئی ہے اسے سلجھانے میں بندہ بے خوابی کاشکار بن سکتا ہے کہ
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گھتی سلجھے
اہل دانش نے بڑی سوچ کے الجھائی ہے
آپ چاہیں تواہل دانش کی جگہ اہل سیاست بھی لگا سکتے ہیں مگرمسئلہ پھرویہ بحریا وزن کا ہوجائے گا
اورویسے بھی اہل سیاست(بہ استثنائے چند) کا اہل دانش سے تعلقات کبھی دوستانہ نہیں رہے ۔ سودیکھتے ہیں کہانی کدھر کو جاتی ہے اوراپنے اس موضوع کی طرف آتے ہیں جس کے بارے میں کالم کے آغاز ہی میں گزارش کردی تھی ‘ یعنی ان دنوں سیاست پر ایک اور افتاد کی نشاندہی ہو رہی ہے اور وہ ہے میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی ملکی سیاست میںدوبارہ انٹری سے پیدا ہونے والی صورتحال ‘ یعنی خود پارٹی کے اندر ہی سے مبینہ بغاوت کی خبریں ‘ اورواقفان حال دور کی کوڑی لاتے ہوئے نون لیگ کی صفوں میں دراڑیں پڑنے کے حوالے سے تبصرے کر رہے ہیں ان خدشات کو اس وقت تقویت ملی جب سابق وزیر اعظم اورمیاں نواز شریف کے انتہائی قریب سمجھے جاے والے دیرینہ ساتھی شاہد خاقان عباسی نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا یوں نون میں سے شین نکالنے والوں کی بن آئی بلکہ ایک خاص گروہ یاطبقہ اب کی بار
پارٹی کو تین دھڑوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھنے لگے کیونکہ ادھر سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے بیانات بھی پارٹی کے ”جسد فکری” میں دراڑیں ڈالتے نظر آئے ‘ تاہم ایک طرف مریم نواز نے اس صورتحال پر جوبیان دیا اورپارٹی کے سینئر رہنمائوں کے لئے احترام کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں پارٹی کا اثاثہ قرار دیا ‘ وہاں خود شاہد خاقان عباسی نے یہ کہہ کر کہ انہوں نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا ہے’ پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ پارٹی کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کی بات کی ‘ اس سے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کی صورتحال بڑی حد تک واضح ہو گئی ہے ‘ حالانکہ شاہد خاقان عباسی کے علاوہ بھی کئی ایک سینئر پارٹی رہنما میاں نوازشریف کے حالیہ فیصلے سے بظاہر تواختلاف کرنے کا حوصلہ نہیں پاتے لیکن درون خانہ وہ بھی خوش دکھائی نہیں دیتے ‘کیونکہ وہ بھی صرف اس لئے کہ مریم نواز اس حقیقت کے باوجود کہ میاں صاحب کی دختر ہیں ‘ مگر پارٹی میں انتہائی جوینئرہیں کو پارٹی کے اتنے اہم عہدے پر تعینات کئے جانے کو دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ میاں صاحب ماضی میں کئی بار مریم نواز کوہی اپنا
سیاسی جانشین قرار دینے کے حوالے سے اشاروں کنایوںمیں واضح کرچکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے تو ان کا مطمع نظریہی ہے کہ اس فیصلے سے گویا ان کی سبکی ہوئی ہے اور جودیگر سینئر پارٹی رہنما دبی زبان میں اس فیصلے پرمعترض ہیں ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے ‘تاہم شایدان کے سامنے بھی ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک مثال موجود ہے ‘ جب بھٹو حکومت کاتختہ الٹاگیا اوربھٹوکویہ احساس ہو گیا کہ اب ان کابچنا محال ہے توانہوں نے بیگم نصرت بھٹو اوربے نظیربھٹو کوپارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کاعندیہ دیا ‘ بیگم بھٹو کی حد تک توپارٹی کی سینئر قیادت کسی نہ کسی حد تک متفق تھی مگربے نظیربھٹو کی لیڈرشپ کے حوالے سے سینئر رہنمائوں میں اختلاف پایا جاتا تھا حالانکہ بھٹو مرحوم نے اپنی زندگی ہی میں بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت پربھرپورتوجہ دی تھی اورانہیں بیرونی دوروں میں بھی ساتھ رکھتے تھے ‘ اور جب سقوط ڈھاکہ کے بعد جنگی قیدیوں کوواپس لانے کے لئے شملہ مذاکرات میں حصہ لینے کے لئے گئے توبے نظیر بھٹو کوبھی نہ صرف ساتھ لے گئے تھے بلکہ وہاں قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مختلف مواقع پر تقریبات وغیرہ میں لباس کے انتخاب کے حوالے سے بھی ہدایات دیں اور ان کو ہر لمحے سنجیدگی چہرے پرطاری کرنے کوکہا تاکہ میڈیا ان کی باڈی لینگویج سے بھی اندازہ نہ کر سکے کہ مذاکرات کس نہج پر جا رہے ہیں اوربھٹو مرحوم کی یہی سیاسی تربیت تھی جس نے آگے چل کر بے نظیر بھٹو کی اپنی سیاسی زندگی میں مدد کی اور انہیں ایک کامیاب سیاسی رہنما کے طور پر عالمی سطح کا لیڈر بنایا۔ اسلئے جب ان کی پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد کئی سیاسی بابوں نے ان کو پارٹی رہنما کے طور پرتسلیم کرنے سے اختلاف کیا توبے نظیربھٹو نے بھی ان کو سائیڈ لائن کرنے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کیا۔ اس کے بعد نتائج سب نے دیکھ لئے ‘ بظاہر تواسوقت پارٹی سے کچھ لوگ علیحدہ ہو کراپنے اپنے دھڑے بنانے لگے مگر بے نظیر کی سیاسی سوجھ بوجھ کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور رفتہ رفتہ وہ لوگ گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے ۔ پارٹی پر ایک بارپھراسی قسم کی صورتحال تب طاری ہوئی جب محترمہ کولیاقت باغ جلسے کے بعد شہید کیاگیا اروآصف علی زرداری نے پارٹی کی باگ ڈور ایک بارپھرمحترمہ کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ تھما دی (ایک وصیت کے مطابق)تب کسی کوپھر جرأت نہ ہوسکی کہ وہ اس فیصلے سے اختلاف کرسکے ‘ اور آج پارٹی بلاول کی قیادت میں ایک بارپھراڑان بھرنے کو ہے ‘ اسی طرح اب دیکھتے ہیں کہ مریم نواز آنے والے دنوں میں پارٹی کوکس نہج پر لے جا کر جاتی ہیں اوربھٹو خاندان کی طرح شریف خاندان کا یہ فیصلہ بھی پھل لاتی ہے یا پھر پارٹی کے اندردھڑے بندی بالآخر پارٹی کو معدومیت کا شکار کرتی ہے ‘ بقول ابن انشائ
توڑی جواس نے ہم تو جوڑی رقیب سے
انشاء تو میرے یار کے بس توڑ جوڑ دیکھ

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام