اب ضمنی انتخابات پرمحاذ آرائی

صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر ہدایت کی ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی ایکٹ کی سیکشن57دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے۔ صدر مملکت نے کہا کہ آئین اور قانون90دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد90دن کے اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہا۔ان کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، آئین میں تمام عہدیداروں کی ذمہ داریاں واضح ہیں، صدر مملکت پی ٹی آئی کارکن کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، انہوں نے غیر آئینی حرکت کی اس کا کوئی جواز نہیں۔ صدر مملکت کے پاس ایگزیکٹو پاور نہیں ہے ۔ صدر نے از خود اعلان کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت نہیں ہوئی۔ آئین میں لکھا ہے کہ صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد اعلان کریں گے۔امر واقع یہ ہے کہ ایسا کرائسز پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا، جنہوں نے اعلان کرنا تھا وہ کرنا نہیں چاہتے۔ایسا لگتا ہے کہ بالاخر فیصلہ عدلیہ ہی کریگی اور معاملہ عدالت ہی جائیگا۔اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں صدر نے سیکشن57 کا حوالہ دیا ہے لیکن یہ درست نہیں، صدر مملکت نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے، یہ بہت سیریس کیس ہو گیا ہے، فیصلہ سپریم کورٹ کریگی۔ صدر مملکت کو چاہیے تھا وہ سپریم کورٹ ریفرنس بھیج دیتے۔خیبر پختونخوا میں معاملہ پہلے ہی عدالت میں ہے پشاور ہائیکورٹ نے صوبائی اسمبلی کے الیکشن نہ کرانے کے خلاف پی ٹی آئی کی دائر رٹ درخواستوں پر سماعت کے دوران۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کے لئے سیکورٹی فراہم کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے اور جب الیکشن کمیشن کہے تو سیکورٹی فراہم کرنا لازمی ہے۔ فی الوقت ضمنی انتخابات کے انعقاد کا کسی جانب سے انکار تو سامنے نہیں آیا اور نہ ہی نوے دن کے اندرضمنی انتخابات کرانے سے انکار کی گنجائش ہے لیکن چونکہ اس حوالے سے آئین و قانون مکمل طور پر واضح نہیں اور اگر مگر کی گنجائش موجود ہے جس کا شاید فائدہ اٹھایا جارہا ہے وفاقی حکومت اور صوبائی نگران حکومتوں دونوں میں گویا اس امر پربادی ا لنظر میں ا تفاق پایا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں بوجوہ انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا مختلف اداروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو جن معروضات سے آگاہ کیا گیا ہے اور جو مشکلات اور صورتحال بیان کی گئی ہے اس میں الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات کا انعقاد کرنے کی پوزیشن میں نہیں اسلام آباد میں عدالت کے حکم کے باوجود انتخابات نہیں کرائے گئے اس نظیر کو سامنے رکھتے ہوئے عدالتی احکامات پربھی لیت و لعل کی صورت نکلتی دکھائی دے رہی ہے جس سے قطع نظر بہرحال اب معاملہ مکمل طور پر عدالت کے زیر نظر نہیں بلکہ سیاسی فورمز پر اس پر کھینچا تانی ہو رہی ہے لیکن بہرحال ایسا لگتا ہے کہ بالاخر معاملات عدالت ہی جائیں گے جس کے بعدعدالت اس ضمن میں حکم جاری کرنے میں کتنا وقت لیتی ہے اور مختلف فریق اس ضمن میں جواب داخل کرنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں ان سارے عوامل کی روشنی میں اس امر کا امکان نظر آتا ہے کہ ضمنی انتخابات کا نوے روز کے اندرشاید انعقاد نہ ہوسکے ۔بہرحال یہ ایک آئینی اور ممکنہ طورپر عدالتی معاملہ ہے جس پر کسی قسم کی وثوق سے رائے زنی مشکل امر ہے البتہ صدر مملکت کے خط اور اس کے بارے میں مختلف وزراء کے بیانات اور ماہرین کے تجزیوں سے صورتحال پیچیدہ اور کشیدہ ہوگئی ہے اس خط کے بعد صدر کے باوقار عہدے کی وقعت بھی سوالیہ نشان اس لئے بن گیا ہے کہ سیاست کے میخانے میں پگڑیاں اچھالنے کا رواج ہے اورعدم احتیاط کے باعث اگر ایوان صدر بھی اس زد میں آئے تو پھر ملکی وقار کی علامت اور وقعت کا سوال اٹھے گا معاملات میں کشیدگی کے اثرات سے دیگر شعبوں کا بھی متاثر ہونا فطری امر ہو گا ایک ایسے وقت جب کہ ملکی حالات کے باعث میثاق سیاست و میثاق معیشت کی ضرورت ہے الٹا انتشار کی کیفیت میں اضافہ کے اقدامات ہو رہے ہیں جس کے ملکی سطح پر اثرات سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ اس معاملے پر مشاورت اور اتفاق رائے کی صورت پیدا کی جائے اور معاملات کو ہوا دینے کی بجائے طے کرنے کا راستہ نکالاجائے ۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ