پارلیمانی نظام اور سوپر کنگ

پاکستان ایک آئینی ریاست ہے ۔جس کا آئینی نظام پارلیمانی ہے ۔پارلیمانی نظام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں طاقت کا کوئی ایک مرکز نہیں ہوتا ۔طاقت اس خوبصورتی سے تقسیم کی جاتی ہے کہ کوئی فردواحد یا گروہ اختیارات کا مرکز نہیں بنتا ۔پارلیمانی نظام میں عوام کی طاقت مسلمہ ہوتی ہے اور عوام کو حکومتیں گرانے اور بنانے کا حتمی اختیار حاصل ہوتا ہے ۔عوام سے حاصل کردہ طاقت مقننہ اور انتظامیہ میں تقسیم ہوتی ہے ۔مقننہ قانون بناتی ہے انتظامیہ اس پر عمل کرتی ہے اور عدلیہ قوانین کی تشریح اور سماجی انصاف کا فریضہ سرانجام دیتی ہے ۔انتظامیہ کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے اورمقننہ میں وزیر اعظم قائد ایوان ہوتا ہے گویا کہ وزیر اعظم اس نظام میں نمایاں اور بااختیار حیثیت کا حامل ہوتا ہے مگر اس حیثیت کے باوجود وزیر اعظم سپر کنگ یا اختیارات کا مرکز ومحور نہیں ہوتا ۔برطانیہ جیسے ملک میں جسے جمہوریتوں کی ماں کہا جاتاوزیراعظم ہمہ وقت احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے ۔ذرا سی بے احتیاطی اور غلطی وزیر اعظم کو حالات کی بلندی سے جواب دہی کی پستی تک پہنچاتی ہے ۔ دارالعوام میں وزیر اعظم کا اس بے رحمی سے احتساب اور اس کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کہ اس عہدے کی مظلومیت پر ترس آنے لگتا ہے ۔ٹونی بلیئر کی عراق حملے پر اور بل کلنٹن کی مونیا لیونسکی سکینڈل پر بننے والی دُرگت آج بھی لوگوں کے حافظے میں تازہ ہے ۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ان کی حکومت میں ”سوپر کنگ ” بنے ہوئے تھے ۔سابق آرمی چیف قمر جاویدباجوہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان ان دنوں غزل اور جواب آں غزل کا سلسلہ چل رہا ہے ۔عمران خان جنرل باجوہ پر اپنی حکومت گرانے کا ا لزام روز اول سے لگا رہے ہیں اور جنرل باجوہ چونکہ دوسالہ پابندی کا سامنا کر رہے ہیں مگرانہوں نے اس کا حل یہ نکال لیا ہے کہ وہ اپنے چند مقرب کالم نگاروں اور اینکرزکو اپنی کتھا سناتے
ہیں جو پھر اس کی نوک پلک سنوارکر جنرل باجوہ کا مقدمہ عوام میں پیش کرتے ہیں ۔ان میں خوش نویس اورخوش گفتارشامل ہو تے ہیںجنہیں لکھنے اور بولنے کا فن بخوبی آتا ہے۔اس کے جواب میں عمران خان پھر اپنا مقدمہ خود پیش کرتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ کسی طور رکنے میں نہیں آرہا ۔تراز و کے دونوں پلڑوں کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کے موقف کا پلڑا زمین سے لگا ہو نظر آتا ہے اور جنرل باجوہ کو وضاحت اور صفائی کے لئے اپنا موقف پیش کرنا پڑتا ہے مگر اس سے انہیں عملی طور پر زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فوج کا ادارہ غیر ضروری طور پر موضوع بحث بنتا ہے۔پاکستان کی فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے یہ زیادہ دیر تک افراد کا بوجھ اُٹھا کر نہیں پھرتا ۔جنرل مشرف نے ریٹائرمنٹ کے بعد جب سیاسی رسہ کشی میں شریک ہو کر موضوع بحث بننے کا راستہ اختیار کیا تو پھر فوج نے ہی انہیں ملک سے باہر جانے کا راستہ دکھایا تاکہ وہ روز روز عدالتوں کے چکر کاٹنے سے بچ جائیں اور فوج کا ادارہ بھی کسی غیر ضروری بحث کا
موضوع نہ بنے۔عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں میں سے کوئی آئین کے تحت سوپر کنگ نہیں تھا ۔نہ جمہوریت میں کنگ ،کنگز پارٹی اور سوپر کنگ کا کوئی تصور ہوتا ہے۔جمہوریت میں سب ادارے اور ریاست عوام کی خدمت کے لئے ہوتی ہے ۔جمہوریت کی تعریف ہی یہ ہے کہ ”عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کی خاطر ”گویا کہ جمہوریت کا نظام عوام کے گرد ہی گھومتا ہے۔جمہوریت اورپارلیمانی نظام میں اگر کوئی سوپر کنگ ہوتا تو وہ وزیر اعظم ہی اس کا مستحق ٹھہرتا مگر اس نظام میں وزیراعظم کے عہدے کو چیکس اینڈ بیلنسز کے نام پر بیک وقت طاقتور اور مجبور رکھا گیا ہے۔کسی دوسرے فرد کا سوپر کنگ ہونے کا تو اس نظام میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔جنرل باجوہ اور عمران خان کے درمیان خرابی ٔ تعلقات کے شعلے اب فلک بوس ہوتے جا رہے ہیں ۔جاوید چوہدری کے کالموں سے آفتاب اقبال کے وی لاگ تک یہ آگ بھڑکتی ہی چلی جا رہی ہے۔جنرل باجوہ اپنا امیج ٹھیک کرنے کی خواہش اور کوشش میں اپنا دامن کانٹوں میں اُلجھا بیٹھے ہیں ۔عمران خان ایک سیاست دان ہیں اور اب سیاست میں ان کا تجربہ اور عمر کرکٹ سے زیادہ ہو چکی ہے ۔برسوں کی سیاسی ریاضت اور محنت کے بعد ان کا شمار سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے میڈیا کا سامناکرنے اور اپنی بات کہنے کا فن انہیں پہلے ہی خوب آتا تھا ۔جنرل قمر باجوہ کی نہ تو عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے کی تربیت نہ تجربہ ۔ان کی جولان گاہ قطعی الگ ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان کا بیانیہ عوام قبول کر چکے ہیں اور اب اس کے رد کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔اس لئے جس قدر جلدی غزل اور جواب آں غزل کا معاملہ ختم ہو تو اچھا ہے۔یہ بحث فوج کے لئے بطور ادارہ بھی سود مند نہیں۔جنرل پرویز مشرف ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اقدامات کے دفاع میں اُلجھ کر فوج کو خواہ مخواہ موضوع بحث بنانے کی کوشش کر چکے ہیں ۔جنرل مشرف اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ پاکستانی عوام میں بے حد مقبول ہیں ۔عوام ان کے طرز حکمرانی سے خوش اور مطمئن رہے ہیں ۔ دوجماعتی نظام اورسیاست دانوں سے تنگ عوام انہیں ایک مسیحا کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اس کے لئے وہ فیس بک فالورز کی بڑی تعداد کا حوالہ دیتے تھے مگر اسی بھروسے پر انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کا چراغ روشن کر کے اپنے فیس بکی پروانوں کے آگے رکھ دیا تھا مگر جب وہ کراچی ائر پورٹ پر اُترے تو شمع موجود تھی مگر پروانے گم تھے۔بعد میں جب وہ ماضی کے کردار کی بنیاد سیاسی تنازعات میں اُلجھنے لگے تھے تو فوج نے انہیں بیرونی دنیا کا راستہ دکھا دیا تھا بلکہ ان کی بیرون ملک روانگی کے باقی مراحل کو آسان بنا دیا تھا ۔یہ پرانی کہانی کی بنیاد پر کسی نئے تنازعے میں اُلجھنے سے گریز کی کوشش تھی ۔پاکستان کی فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے یہاں کوئی ظل سبحانی اور فکری راہنما نہیں ہوتا یہاں لمحہ موجود کا کمانڈر ہی اس کا قائد ہوتا ہے ۔یوں لگتا ہے جنرل قمر باجوہ بھی جلد ہی اس حقیقت کو پالیں گے ۔قصہ ٔ کوتاہ آئین پاکستان کو لاگو کرنے کا جو احساس او رمطالبہ چھوٹے صوبوں کی زبان سے سننے کو ملتا تھا اب پنجاب میں بھی لوگ اس مطالبے کو دل وجان سے دہراتے نظر آتے ہیں۔آئین میں سویلین کنگ ہے نہ فوجی کنگ اوپر سے ملک کا نام بھی کنگڈم کی بجائے ری پبلک ہے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو