بے مول ؟

مہنگائی کے کچلے ہوئے عوام اور حکومت کی جانب سے مسلسل بنیادی ضروریات کی غیر دستیابی کی وجہ سے جہاں دیگر اور شعبے اپنی حالت پر نوحہ کناں ہیں ، وہیں صحت کے شعبے کو بھی کمال بے حسی کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج باقی شعبوں کی نسبت زیادہ تشویشناک اور سنگین ہوتے جارہے ہیں ۔ انسانی جان کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے نظر انداز کرنے کے بعد اس کی ریکوری کی جاسکے ۔ پاکستان میں انسانی جان اتنی سستی ہو چکی ہے کہ سرکار ہو یا پھر مفاد پرست ہیلتھ مافیا ، سب نے مل کر اس صورتحال کو خطرناک حد تک پہنچا دیا ہے ۔ حال ہی میں وفاق کی جانب سے صحت کارڈ کے بجٹ کا خاتمہ اس کی تازہ مثال ہے ۔اس کارڈ کے ذریعے اب تک1.3ملین مریض مستفید ہوچکے تھے ۔ لیکن عوامی درد رکھنے والی جماعتوں کے اتحاد نے سب سے پہلا کاری وار اس ہی پر کیا۔ جمہوری حکومت اور عوامی نمائندوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ باقی صوبوں میں بھی اس قسم کے سسٹم کو رائج کیا جاتاتاکہ وہ طبقہ جو پرائیویٹ ہسپتالوں کی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ، وہ اپنے پیاروں کو بے بسی کے ساتھ تڑپتے نہ دیکھے۔لیکن محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک غریب سے اس کی سانسوں کا حق بھی چھین لیا گیا ۔ کیا دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ریاست کے خزانوں کو بھرنے کا یہی ایک ، واحد زریعہ تھا؟ سرکاری کاموں میں بے پناہ اسراف کو روک کر ، کرپشن کی رگوں کو کاٹ کار بھی یہ پیسہ بچایا جا سکتا تھا ، لیکن حکومت کی نظر میں شاید سب سے بے مول شے غربت کے ستائے ہوئے پاکستانیوں کی زندگیاں ہی تھیں۔ بڑے بڑے افسران جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں ،ان کو تو تمام مراعات دی جا رہی ہیں۔بلکہ ان کی تنخواہوں میں مزید اضافوں کی سمریاں گردش کر رہی ہیں ۔ معیشت کی اس بد حالی میں جب غریب سے اس کا صحت کارڈ بھی چھین لیا گیا ہے ، یہ کس منہ سے تنخواہوں میں اضافے کے لئے سمریاں جاری کررہے ہیں؟ مگر بزبان غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی!!!
اس مہنگائی کے طوفان میں جہاں سفید پوش طبقہ مسلسل زندگی کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ سے خطِ غربت سے بھی نیچے جاتاجارہا ہے ، وہاں کیسے ممکن ہے کہ وہ ہاری بیماری میں پرائیویٹ ہیلتھ مافیا کے بلز ادا کریگا؟ چلیں ٹھیک ہے کوئی ضرورت نہیں کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرئے۔وہ سرکاری ہسپتال جائے ۔ٹھیک ہے ، بالکل ٹھیک ہے ۔ لیکن کیا سرکاری ہسپتال کی کارکردگی سے آپ اور میں واقف نہیں ہیں ؟؟جہاں انجیو گرافی میں غبارے کا استعمال کیا جاتا ہو ،جہاں پیٹ کے درد میں گردے نکال لیے جاتے ہوں ،جہاں حساس نوعیت کے آپریشنزکے دوران مجرمانہ غفلتیں کی جاتی ہوں، جہاں ہارٹ اٹیک کے مریض کو بیڈ ملنے کے لئے تین ماہ کا وقت دیا جاتا ہو،جہاں صحت کی بنیادی سہولیات اور اخلاقیات کا شدید فقدان ہو، وہاں کیسے اپنے عزیزوں کو آپ تڑپنے کے لئے چھوڑ دیں گے؟۔2010میں اٹھارویں ترمیم کے بعد جب صوبوں کو صحت اور دیگر شعبوں میں خودمختاری دے دی گئی تھی تو امید ابھری تھی کہ اب صوبوں کے تحت آنے والے تمام شعبوں میں تیزی سے بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔ لیکن ذاتی وسیاسی مفادات پھر حاوی رہے ۔ صوبے اپنے اپنے بجٹ کے ساتھ بہت بہتر طریقے سے بنیادی صحت کے مسائل کے حل اور علاج کے انتظامات کر سکتے تھے ، لیکن وسائل کے نا کافی ہونے کا راگ ہی آلاپتے رہے ۔ حالانکہ در حقیقت ، ہر صوبے کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ اگر وہ صحیح اصلاحاتی اقدامات اور وسائل کے استعمال پر جوابدہی کے نظام کو اپنا لیں تو سرکاری ہسپتال ہی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہونگے۔
اس وقت ،پاکستان اپنی جی ڈی پی کا3فیصد حصہ شعبہ صحت کے لیے مختص کرتا ہے جبکہ، ہمارے ہمسایہ ممالک اپنی اپنی جی ڈی پی کا، ہم سے کم حصہ اپنے صحت کے شعبے پر خرچ کرتے ہیں، لیکن وہاں صحت کے شعبوں کا یہ حال نہیں ہے، جیسا یہاں ہے۔ہماری خرچ کی گئی رقم اتنی کم نہیں جتنا برا حال ہمارے صحت کے شعبے کا ہو چکا ہے۔ اس کی بہت سی وہی وجوہات ہیں جو دیگر شعبوں کی زبوں حالی کا بھی سبب بنتی رہی ہیں ۔ مکمل عملہ ،ایک کلرک سے لیکر سرجن تک، سب ہی بے حسی اور غفلتوں کی انتہاں پر ہیں ۔حفظان صحت کے اصولوں کو یکسر فراموش کر کے جس قسم کا گندا پانی ، ناقص غذا اور ماحولیاتی آلودگی ہمیں میسر آتی ہے اس نے پہلے ہی ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیا ہے ۔مزید برآں، ذمہ دراں کی مجرمانہ بے حسی،روزانہ بڑی تعداد میںانسانی قیمتی جانوں کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں اگر طبی نگہداشت کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جائے ، تو بہت سے افراد کو مکمل تندرست زندگی کی طرف واپس لا یا جاسکتا ہے۔ جسمانی صحت کے علاوہ ، پاکستان کی16-10فیصد آبادی نفسیاتی و ذہنی عوارض کا شکار ہوچکی ہے ۔ مالی مسائل ، کلاس سسٹم اور پستی کی جانب گامزن معاشرتی نظام ، یہ سب وہ عناصر ہیں جو ذہنی دبائو، ڈپریشن اور پھر بالاخر ذہنی
عوارض کو جنم دینے لگتے ہیں۔ نوجوان آبادی پر مشتمل ریاست بہت حساس ہوتی ہے ۔ چونکہ عموماً نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور سوچے سمجھے بنا بہت کچھ کر گزرتے ہیں ۔ جس میں نہ صرف وہ اپنا نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنے سے وابستہ ہر شے ، افراد اور ریاست کے لئے خطرہ ثابت ہوتے ہیں۔ نوجوان آبادی کی کثرت کے ان گنت فوائد کے ساتھ ساتھ ، اس کی حساسیت اس کو نازک ترین بناتی ہے ۔ اس معاملے کی سنگینی کو پیش نظر رکھ کر اگرہم پاکستان کا جائزہ لیں ،تو یہ ایسی ریاست ہے ،جس کی آبادی کا65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ، توجہاں وہ اپنی نسل نو کے ساتھ ایک سرمایہ لیے کھڑا ہے، وہیں اس سے لاحق بے شمار خطرات کا بھی سامنا کرتا ہے ۔ ان خطرات کو ذہنی عوارض اور نشے کی لت مزید ہوا دیتے ہیں ، اگر ان عوامل پر قابو نہیں پایاگیا تو یہ ہماری سوچ سے بڑھ کے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔یہ نسل ہماری کل کی معمار ہے ۔ اگر آج یہی نفسیاتی مسائل ، جنونی کیفیات اور نشے میں لگ جائے گی، تو مستقبل کون تعمیر کریگا؟ جبکہ ذہنی مسائل کی شکار نوجوان نسل کو شر پسند عناصربآسانی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس وقت ہمارا شمار ڈبلیو ایچ او ، 2022کے سروے کے مطابق معیار صحت میں 192ممالک میں سے122پر ہوتا ہے ۔پاکستان کا ایک ایٹمی ریاست ہونے کے باوجود یہ شمارجاتی اور پولیو کا خاتمہ نہ کرپا نا ، پوری دنیا میں اس کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ رہا ہے ۔لہذا،ہمیں ہنگامی بنیادوں پر صحت کے ہر شعبے میں خواہ جسمانی ہو یا ذہنی ، ترجیحاتی بنیادوں پر اہم ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،جس سے ہم مقامی سطح پر شہریوں کے معیار صحت کو بہتربناکر ”سسٹینیبل ڈولپمینٹ گولز”(ایس ڈی جی ) میں کامیابی حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنا تشخص ابھار سکیں ۔ کیونکہ اب ماحولیاتی تبدیلی اور نفسیاتی مسائل دو ایسے زہر ہیں، جن سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکے گا ۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟