مشرقیات

ایک نامی گرامی حکیم تھا۔ دور دور تک اس کی شہرت تھی، بڑی پرانی اور بڑی ٹیڑھی میڑھی بیماریوں کا وہ علاج کرتا۔ ایک سے ایک حکیمیہ نسخہ اس کے پاس تھا۔ ایسا شرط لگا کے علاج کر تاکہ مایوس سے مایوس بیمار اس کے ہاتھ سے شفا پائے۔
سعدی شیرازی نے لکھا ہے وہ حکیم ان ہی کے ملک کا رہنے والا تھا۔ مگر حکیم ان سے بہت پہلے کہا تھا۔ اسے ان کے بادشاہ نے سرزمین حجاز بھیجا کہ وہاں جائو اور اللہ کے بندوں کا علاج کرو۔ اس زمانے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا میں تشریف فرما تھے۔ وہ حکیم آپۖ کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا کہ مجھے میرے بادشاہ نے آپۖ کے ملک والوں کا علاج کرنے بھیجا ہے ! بڑی خوشی کی بات ہے ، تم یہاں رہو اور جو بیمارپڑے اس کا علاج کروکچھ یہی مطلب آپ کے ارشاد کا تھا۔ حکیم ، ڈاکٹر ہر سوسائٹی میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ، اس لئے کہ یہ لوگ اپنے علم سے اپنی مہارت سے اپنی توجہ اور خدمت سے روتوں کو ہنساتے اور دکھ جھیلنے والوں کو در داور دکھ سے بچاتے ہیں یہ اللہ کے بندوں کی بہت بڑی خدمت ہے ۔ اس خدمت کیلئے خلوص کی ، اخلاق کی اور نرمی کی بہت ضرورت ہے اگر حکیم یا ڈاکٹر بد مزاج اور لالچی ہے تو بہت جلد اس کی شہرت اور عزت متاثر ہو جاتی ہے۔ اگر آدمی کو چار پیسے مل جائیں اور لوگ اسے بڑاکہیں تو ایسی دولت سے کیا فائدہ ؟ اللہ تعالیٰ ایسی دولت سے برکت اٹھا دیا ہے ، ہم مسلمان ہیں ہم کو تو ان باتوں کا خیال رکھنا ہی چاہئے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں پر نظر ڈالئے۔ ان کے ڈاکٹر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں جس تندہی سے کام لیتے ہیں اور جس خوش اخلاقی سے اپنے مریضوں سے پیش آتے ہیں وہ ایک بہت اچھا نمونہ ہے۔
جس حکیم یا ڈاکٹر میں خوش اخلاقی اور ہمدردی نہ ہو اس کی زندگی بہت تھوڑی ہوتی ہے ۔ وہ حکیم ہے عجم کے بادشاہ نے عرب بھیجا تھا مدینة البنتی میں رہ گیا۔ لوگ اس کا بڑا احترام کرتے۔ وہ بھی لوگوں سے بڑی محبت سے ملتا۔ اس کی اسی محبت اور خوش اخلاقی سے لوگ اس کے گر ویدہ ہو گئے۔ وہ مدینے ہیں
بہت دنوں تک رہا۔ آخر ایک دن پھر اللہ کے رسولۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور بولا کہ اب مجھے رخصت کی اجازت دیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیوں؟اس نے کہا۔ یہاں میرے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ! آپ نے فرمایا یہ بات تم کیوں کہتے ہو ؟ اس نے کہا میرے آقا نے مجھے علاج کرنے کے لئے بھیجا تھا، مگر میں یہاں کس کا علاج کروں ؟ کوئی میرے پاس علاج کرانے کے لئے آتا ہی نہیں اور آئے کہاں سے ہے کوئی بیمار پڑے گا تب میرے پاس آئے گا، یہاں تو ماشا اللہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ بیمار پڑتے ہی نہیں ۔ سعدی نے لکھا ہے اس کا جواب اللہ کے رسولۖ نے یہ دیا کہ میرے صحابہ کی یہ عادت ہے کہ جب تک بھوک نہ ہو کچھ نہیں کھاتے اور تھوڑی بھوک باقی رہتی ہے تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ۔حکیم نے فوراً کہا۔۔۔ ان کی تندرستی کا یہی راز ہے۔
اس لئے کہا جاتا ہے کہ اپنی بھوک سے کم کھانا نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بہت کھانے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے ۔ ایک ارشاد نبوی کا مطلب ہے کہ ۔۔۔ کم کھانا عبادت ہے۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی