ہرجا سلطان خیمہ زد سلطان است

لفظ سلطان کیثر المعنی ہے ،یہ کسی سلطنت کسی ملک یا ریاست کے والی ،بادشاہ حاکم ،غلبہ ،قدرت ،نشانی ،دلیل ،معجزہ حکومت اور نہ جانے کن کن معنی میں مستعمل ہے اسی طرح تصوف کی اصطلاح میں جس کا قیام اعمال پر ہمیشہ ہو یعنی اصطلاح میں مبتدی کے لیے استقامت باعمل ہے ۔ چنانچہ طاقت یا استحقامت ، اور غلبہ کے معنی میں زیا دہ استعمال ہو ا ہے اسی غلبہ اور طاقت کی علا مت کے طور پر سورج کو سلطان اختران بھی کہا جا تا ہے ، ابھی دو روز قبل سلطان اختران معذرت آفتاب سلطان نے چیئر مین نیب کے عہدے سے احتجا جاًاستعفیٰ دیے دیاجا تے جا تے اپنے ساتھیو ں کو یہ بھی بتا گئے کہ جھوٹے کیس بنا نے کے لیے دباؤڈالا گیا۔ موصوف آفتاب سلطان کے اس اقدام کو قابل تحسین قرار دیا جا سکتا ہے ، کچھ حلقوں کی جانب سے تحسینی کلمات بھی نچھا ور کیے گئے ، ویسے نیب کے چیئر مین کا عہدہ ہے بڑا کٹھو ر ، جب جسٹس جاوید اقبال اس عہد ہ جلیلہ پر فائز تھے تب بھی بڑے ثقیل معاملا ت کا ذکر سننے کو ملتا تھا ، خیر اب وہ دور قصہ پارینہ ہو گیا ہے اس سے پہلے بشیر میمن کا معاملہ اٹھاتھا جس کی ایک طویل داستان ہے اور بشیر میمن کو ایسے ہی دباؤ جس کا ذکر آفتا ب سلطان نے کیا ہے سامنا اس حد تک کر نا پڑا کہ ان کو کچھ وقت بیت الخلا ء میں بھی گزارنا پڑ گیا تاہم انھوں نے دباؤکے آگے سرنہیں جھکا یا ،نیب کا یہ ادارہ گو کہ احتساب کے عمل کو مئو ثر کر نے کی غرض بتا کر قائم کیا گیا مگر اس ادارے کا بانی پرویز مشرف نے ادارے کے قیا م کے اغراض تو اچھے بیا ن کیے تھے مگر نیت میںکھوٹ تھا چنا نچہ اس اداروں کو انھو ں نے سیا سی مفادات اور سیا سی مخالفین کو دبانے کی غرض سے استعمال ہی کیا جس کی وجہ سے پاکستان میں احتساب کا لفظ ایک مذاق بن کررہ گیا ہے ، اور دیکھنے میں یہ ہی آیا کہ ادارے کا ہر دور میں اعتما د متزلز ل ہی ہو ا ہے ، جاتے جاتے آفتا ب سلطان نے جو وجو ہ بتائی ہیں دراصل وہ حکومت پر سنگین الزاما ت ہی قرار پاتے ہیں ، موجو دہ حکومت سے یہ توقع تھی کہ اس کے ارباب حل وعقد نے ما ضی میںاس ادارے پردباؤ کی وجہ سے بڑے چرکے کھا ئے ہیں چنا نچہ وہ اپنے مخالفین کی مثال نہیں بنے گی بلکہ ان کے لیے ایک نمونہ ثابت ہو گی ، چنا نچہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک مثبت ردعمل دیا ہے کہ انھو ں نے آفتاب سلطان سے کہا ہے کہ وہ محجو ب بات نہ کر یں بلکہ صاف بتائیں کہ ان پر دباؤ کس جا نب سے پڑا تھا ، کھل کر بات کر یں عوام میں ابہام نہ پیدا کر یں ، ماضی میں بھی ایسے دباؤ کے بارے میں بھی ذومعنی ذکر کیا جا تا تھا تاہم با ت کسی حد تک شفا ف بھی ہو جا تی تھی ،
چنا نچہ حکمرانو ں کے علا وہ کچھ اداروں کا بھی ماضی میں ذکر ہو ا ہے کہ وہ نیب پر اثر انداز ہو تے رہے ہیں چنا نچہ آفتاب سلطان کا خطاب محض ابہا م پید اکر نے کے علا وہ کوئی روشنی نہیں ڈال رہا ہے کیا ان پر حکومت کے بڑوں کی جانب سے تھا یا پھر ما ضی کی طر ح کسی ادارے کی طرف سے پڑ رہا تھا ، آفتاب سلطان کی تقرری کی بنیا د یہ ہی تھی کہ وہ ایک ایماندار ، سلیقہ مند افسر ، اصولو ں کے پابند ہیں وہ مستعفی ہو نے والے عہد ے سے پہلے بھی ملک کے اہم سرکا ری عہد و ں پر فائز رہے ہیں ان کے بارے میں عمدہ رائے پائی گئی ہے ، کہا جاتا ہے کہ جب موصوف آئی بی کے سربراہ تھے تب انھوں نے ادارے کو ایک جدید اور طاقت ور ادارہ بنا نے میں کردار اداکیا تھا انہی دنوں کی بات ہے کہ انھو ں نے سابق وزیر اعظم نو از شریف کو ایک آیڈیو فر اہم کی تھی جو جنرل (ر) ظہیر السلام کی تھی
چنانچہ یہ آڈیو نو از شریف نے جنرل راحیل شریف کو بھیجو ادی اور جنرل راحیل شریف نے جب لفٹینٹ جنرل ظہیر السلام سے اس بابت میں استفسار کیا تو انھو ں نے اثبات میں جو اب دیا تھا ، گویا آفتاب سلطان کی سربراہی میں آئی بی نے ٹیلی فون کال ریکا رڈ کر نے کی بھی صلا حیت حاصل کر لی تھی ، اس سب کے باوجود آفتا ب سلطان کے الوداعی فرمودات سے پوری طرح اتفاق نہیںکیا جا سکتا ، وہ نام سے بھی غلبہ پانے والی شخصیت ہیں اور اختیا ر کے لحاظ سے بھی لیکن دباؤ قبول کر نے والی بات دل کو نہیں لگی کیو ں کہ جو بندہ اصول پر ست ہو اور اس میںکچھ کج نہ ہوتو وہ اپنے ہر اصول اور قاعدے پر آخر وقت تک مستحکم قدم جما ئے رکھتا ہے ، جیسا کہ بشیر میمن نے کردار ادا کیا ، انھوں نے استعفی نہیں دیا اپنی مد ت ملازمت پوری کی یہ ہی شجاعت قرار پاتی ہے کہ آخر وقت تک ہتھیار نہ ڈالے جو دباؤ برداشت نہیںکر تے وہ اور اپنے فرائض کی ادائیگی سے الگ ہو جایا کر تے ہیں یعنی مستعفی ہو جا تے ہیں ان کے بارے میںکیسے دعوٰی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے دباؤقبول نہیںکیا استعفیٰ دینا بھی دباؤ کے زمر ے میں آتاہے اسی طرح حقائق کو ملفوف کرکے آشکا را کر نا بھی اصولو ں کی خلاف سمت قر ار پاتی ہے ، جیسا کہ شاید خاقان عباسی نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کھل کر نشاندہی کریں کہ جھوٹے مقدما ت قائم کر نے کے لیے کس نے ان پر دباؤ ڈالا تاکہ قوم کے سامنے ایسے چہر ے عیاںہو جائیں ۔ اگر وہ ایسانہیںکرپاتے تو پھر انھو ں نے الوداعی خطاب میںجو فرمایا وہ سب بے معنی ہی قرار پائے گا ، اس ملک نے جھو ٹے مقدما ت اور ایسی ہی قبیح افعال کی وجہ سے بڑے جھٹکے کھائے ہیں اوران جھٹکوں ورم اب بھی سہ رہے ہیں ، جو ناقابل تلافی قومی نقصان ہے ، جس مقام کی بات آفتاب سلطان کر رہے ہیںوہ اب عوام کو قطعی قبول نہیںوہ آفتاب سلطان ہیں ان کو سلطان اختران بن جا نا چاہیے کہ قوم کی نیا کا رخ بھی شفا ف ہو جائے ۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال